حوا کی بیٹی اور خادم اعلیٰ!
میرے ایک دوست جو سینئر صحافی ہیں اِن کو اگر بیورو کریسی سپیشلسٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا وہ اکثر کہتے ہیں کہ بیورو کریسی میں کئی قسمیں ہیں جن میں ایک قسم ان بیورو کریٹس کی ہے جو خود ساختہ ایماندار کہلواتے ہیں یہ ایسے حضرات ہوتے ہیں جن کو ایمانداری ، دیانتداری کی کسی جگہ سے کوئی سند یا ڈگری نہیں ملی ہوتی اور نہ ہی ان کا کام ایسا ہوتا ہے کہ ان کی دیانت اور امانت کی سند ان کو دی جا سکے ۔ ویسے بھی دلوں کے حال خداتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کون ایماندار ہے اور کون گنہگار لیکن بظاہر ہر وہ شخص جس سے خلق خدا خوش ہو ، جو دوسروں کے کام آتا ہو جس کا اخلاق اچھا ہو ایسے شخص کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ بہتر انسان ہے یا پھر بہتر آفیسر ہے لیکن میرے دوست کے بقول بیورو کریسی کے چند افسران کا خیال ہے یا خود ساختہ دعویٰ ہے کہ وہ بہت ایماندار ہیں وہ اپنے اسی زعم میں اپنے ماتحتوں اور خلق خدا کیلئے کسی بھی طرح عذاب سے کم نہیں ہوتے ان حضرات میں کچھ نمازی ہیں اور کچھ نماز کے قریب بھی نہیں جاتے جو نماز پڑھتے ہیں وہ اپنی نماز کا غصہ اور رعب تمام دن اپنے ماتحتوں اور مسائل کے حل کیلئے آنے والے سائلوں پرنکالتے ہیں گویا اپنے کمرے میں داخل ہونے والے ہر شخص کے بارے میں ان کا پہلے سے خیال ہوتا ہے کہ یہ کرپٹ اور گنہگار شخص ہے ۔ایمانداری کی دوسری قسم کے بیورو کریٹ جو نماز کے قریب تو نہیں جاتے مگر اپنے ہر عمل کو نماز سے بہت افضل سمجھتے ہیں اور تمام دن وہ بھی اپنے ماتحتوں اور عام پاکستانیوں کو اپنے عمل اور منفی روئیے سے احساس دلانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین انسان ہیں۔ امانت اور دیانت کا آغاز انکی وجہ سے ہوا اور ان پر ہی ختم ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے بیورو کریٹس کے بارے میرے دوست کا دعویٰ ہے کہ اگر غلطی سے بھی ان حضرات سے کسی کا فائدہ ہو جائے تو یہ غم اور پریشانی سے بیمار ہو جاتے ہیں بلکہ ہائی لیول کی کمیٹی تشکیل دے کر اس کو کہتے ہیں کہ پتہ کرو میرے ہاتھ سے کسی کا فائدہ کیسے ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں کسی کا دیانتدار ہونا ، نمازی ہونا اور ایماندار ہونا یا پھر نیک ہونا خالصتاً اس بندے اور اللہ کا معاملہ ہے اگر کوئی شخص اپنی نمازوں ، نیکیوں اور ایمانداری کے زعم میں اللہ کی مخلوق کیلئے عذاب بنا ہوا ہے تو ایسے انسان کو اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے۔
قارئین یہ تمہید مجھے اس لئے باندھنی پڑی کیونکہ دو روز قبل میرا واسطہ بھی ایسے ہی ایک ایماندار ؟ آفیسر سے پڑا جس کی گفتگو اور رویہ دیکھ کر مجھے اپنا بیورو کریسی سپیشلسٹ دوست یاد آ گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں اپنے ایک دوست کے پاس ملنے کیلئے گیا میں ابھی اس کے کمرے میں داخل ہی ہو رہا تھا کہ وہ اچانک اپنی کرسی سے اٹھا اور شدید اضطراب اور غصہ کے عالم میں میرا ہاتھ پکڑ کر فون سنتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھا میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو میرے دوست نے مجھے اشارہ کیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ میں اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا دوست نے فون سننے کے دوران ہی ڈرائیور کو گاڑی چلانے کیلئے کہا ، ڈرائیور نے پوچھا کہاں جانا ہے اتنی دیر میں میرے دوست کا فون بند ہو گیا اس نے ڈرائیور کو سول سیکریٹریٹ کی طرف گاڑی کا رخ کرنے کی ہدایت دی گاڑی جیل روڈ پر تیزی سے سول سیکریٹریٹ کی جانب بڑھ رہی تھی میرے دوست نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ایک آفیسر جو اپنے آپ کو ایماندار اور دیانتدار کہتا ہے نے راولپنڈی سے میری بہن جو ریسرچ آفیسر اور ڈاکٹر ہے کو صبح 9بجے سے بلا کر دفتر کے باہر بٹھا رکھا ہے اور اب رات کے ساڑھے 7 بج چکے ہیں کئی بار ایماندار آفیسر کو توجہ دلائی جا چکی ہے کہ آپ کے دفتر کے باہر بیٹھی خاتون کے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مگر موصوف کہتے ہیں کہ وہ دیگر میٹنگز میں مصروف ہیں ۔ صبح 9 بجے سے لیکر رات کے ساڑھے 7تک انتظار کرنے کے بعد میری فون پر اپنی بہن سے بات ہوئی تو اس نے باقاعدہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا ہے کہ میرے بچے گھر میں رو رہے ہیں یہاں ایک آفیسر نے اپنی انا کی تسکین کیلئے مجھے اپنے دفتر کے باہر بٹھا رکھا ہے لہٰذا اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں خود جاؤں اور جا کر مذکورہ آفیسر سے ملوں اور ان سے دریافت کروں کہ کون سی ایسی اہم میٹنگز ہیں جن میں آپ مصروف ہیں اور پچھلے 10 گھنٹے سے ایک خاتون کو راولپنڈی سے بلوا کر بلا وجہ بٹھا رکھا ہے۔ گپ شپ کرتے ہوئے چند منٹ کے بعد ہم مذکورہ آفیسر کے دفتر میں تھے اور موصوف اپنے دفتر میں ایک آفیسر کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔ میرے دوست نے مذکورہ آفیسر سے مخاطب ہو کر کہا کہ خدا کا خوف کریں اگر میری بہن کی جگہ آپ کی بہن ہو تو آپ پر کیا بیتے گی جس پر مذکورہ آفیسر نے پہلے تو لا علمی کا اظہار فرمایا بعد میں اپنے پی اے کو کہا کہ مذکورہ خاتون کو اندار بلوایا جائے۔ خاتون جب اندار آئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مگر اس کے باوجود مذکورہ آفیسر کے رویے میں تلخی اور شدید غصہ تھا اور اس نے چیختے ہوئے اپنے پی اے کو حکم دیا کہ آئندہ اس خاتون کو نا بلایا کریں۔ میرے دوست نے انتہائی مہذب انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور ہم دوست کی بہن کو لیکر واپس آنے لگے تو اسی دفتر کے ایک باریش بزرگ اہلکار نے ہماری گاڑی روک لی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے آپ نے اس آفیسر کو کھری کھری سنائی ہیں ورنہ یہ آفیسر اپنے ماتحتوں کیلئے کسی بھی طرح عذاب سے کم نہیں ہے میں نے بزرگ اہلکار کو مخاطب کر کے کہا کہ اس آفیسر کا تو دعویٰ ہے وہ انتہائی ایماندار ہے ،آپ کو کیا مسئلہ ہے ؟اس نے غمزدہ لہجے میں کہا کہ ایک پاگل شخص نے پورے محکمے کو پاگل کر رکھا ہے میں نے پھر معذرت کرتے ہوئے عرض کی کہ مجھے لگتا ہے آپ بھی اسی آفیسر کے ستائے ہوئے ہیں ۔ میں نے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں آپ سے کوئی نہ پوچھے ۔ اس اہلکار نے جواب دیا ایسا ہرگز نہیں ہم سب کام کرنا چاہتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ موصوف اپنے علاوہ باقی تمام افراد کو گھٹیا ، کم تر ، بددیانت اور نکما سمجھتے ہیں ۔ بزرگ نے کہا کہ میں صبح سے شام تک ان دفاتر میں جس طرح خواتین کی تذلیل ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں مجھے شرم آتی ہے اور میں کئی بار متعدد افسران کی اس ایشو پر توجہ دلا چکا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ میں ’’ڈی وی ایم‘‘ کے عہدے پر بھرتی کی جانے والی نوجوان لڑکیوں کو رات گئے تک مختلف افسروں کے دفاتر میں کیوں رکھا جاتا ہے اور بعض افسران اپنے مذموم مقاصد کیلئے ان نوجوان لڑکیوں کو ہراساں بھی کرتے ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہئے کہ رات گئے تک ان دفاتر میں کونسی ریسرچ ہو رہی ہوتی ہے کہ خواتین کو رات گئے تک دفتروں میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ سوچ اور اپروچ محکمے کی بہتری کی بجائے خرابی کا باعث بن رہی ہے۔ بزرگ اہلکار سے اجازت طلب کر کے گاڑی میں بیٹھ کر دوست کے گھر کی جانب روانہ ہوئے تو میرے دوست نے اپنی بہن کو کہا کہ اس سے بہتر ہے یا تو کل سے چھٹی لے لو یا پھر نوکری سے استعفیٰ دیدو ،جس کے جواب میں ان کی بہن ڈاکٹر ؍ ریسرچ آفیسر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بتایا کہ میں نے بائیو کیمسٹری میں ایم فل کیا ہے اور گزشتہ 16 سال سے پولٹری ریسرچ انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں بطور ریسرچ آفیسر کام کر رہی ہوں مجھے سیکرٹری لائیو سٹاک نے سیکرٹری آفس صبح 9 بجے طلب کیا مجھے بلاتے وقت یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ایجنڈا کیا ہے۔ میرے سمیت فی میل افسران کو یہاں بلوا کر بلیک میل کیا جانا معمول کی بات ہے اور اکثر خواتین افسران اور اہلکاروں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ سیکرٹری آفس میں صبح 9 بجے سے لیکر رات ساڑھے 7 بجے تک میں جس بھی کمرے میں گئی وہاں پر بیٹھے افسران اور اہلکاروں نے مجھے گھورتے ہوئے بدتمیرانہ گفتگو کی انتہا کر دی اس نے بتایا کہ میں ایک سینئر آفیسر کے کمرے میں بیٹھ کر سیکرٹری سے میٹنگ کا انتظار کر رہی تھی کہ ایک دوسرا آفیسر وہاں آیا اس نے کہا کہ آپ کے پاس ایک لڑکی بیٹھی ہے آپ اس سے گپ شپ کیوں نہیں لگا رہے ؟جس پر مذکورہ آفیسر نے جواب دیا کہ یہ لڑکی نہیں یہ تو دو بچوں کی ماں ہے ۔پھر ایک اور صاحب آئے جو اسکی لاہور اور راولپنڈی میں رہائش کے بارے دریافت کرتے رہے ۔ ایک آفیسر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ کہتی ہے میں جب لاہور آتی ہوں یہاں اپنی بہن کے گھر میں مجھے قیام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتی ہے یہاں کسی جگہ اکیلی ہی رہتی ہوگی۔ یہ تماشا سیکرٹری کے دفتر سے ملحقہ کمروں میں صبح شام جاری رہتا ہے۔ میں تفصیلات بھی سن رہا تھا،مذکورہ خاتون ریسرچ آفیسر کو روتے ہوئے دیکھ بھی رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ایمانداری کے دعویدار آفیسر کے دفتر میں یہ تماشا جاری ہے تو باقی جگہوں پر کیا ہوتا ہو گا جبکہ پنجاب اسمبلی ورکنگ وومن کے بارے میں باقاعدہ قانون پاس کر چکی ہے اور پنجاب حکومت نے اس حوالے سے ورکنگ وومن کی شکایات سننے کیلئے کمپلینٹ سیل بھی قائم کر رکھا ہے۔ واضح رہے مذکورہ خاتون جس کو ہراساں کیا گیا ہے وہ اپنے محکمہ کے راولپنڈی آفس میں خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے قائم کی گئی کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں اور گزشتہ ایک سال میں راولپنڈی آفس میں بھی اسی نوعیت کے 4 کیس حل کر چکی ہیں میں نے پوری کہانی سن تو لی ہے مگر پوری کہانی کالم میں لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔
قارئین یقیناًآپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے پورا کالم لکھ ڈالا مگر اس ایماندار بیورو کریٹ کا تذکرہ نہیں کیا اور اس کے ذکر کے بغیر کالم مکمل بھی نہیں ہو سکتا ہے مذکورہ بیورو کریٹ کا نام نسیم صادق ہے جو آج کل سیکرٹری لائیو سٹاک پنجاب ہیں ۔ موصوف اس سے قبل بھی لاہور سمیت پنجاب کے مختلف محکموں میں اہم پوسٹوں پر تعینات رہے ہیں ان کے بارے تاثر یہی ہے کہ موصوف ایماندار اور محنتی آفیسر ہیں البتہ ایماندار کی کونسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں اس بارے مجھے علم نہ ہے میں نے جو کچھ سنا اور جو دیکھا سپرد قلم کر دیا اس میں سسٹم کی خرابی ہے یا کسی شخص کے ذہن یا رویوں کا کمال ہے میں اس حوالے سے اپنی ذاتی رائے نہیں دینا چاہتا۔ قارئین آپ بہترین جج ہیں آپ کے سامنے ایک ایماندار آفیسر کی مختصر ترین کہانی رکھی ہے آپ اپنے اپنے تجربات کی بنیاد پر بآسانی حقائق تک پہنچ جائیں گے کہ بیورو کریسی کے ’’کلاکار ‘‘عوام کے ساتھ کیا کیا کر رہے ہیں۔ جب تک کالم چھپ کر قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا تب تک اس حوالے سے تفصیلی خط بھی خادم اعلیٰ تک امید ہے پہنچ چکا ہوگا۔ میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کروائیں تاکہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو سزا مل سکے۔