میرے معصوم شہداء
تحریر: ڈاکٹر ہمامیر
صبح کا وقت تھا‘ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے گراؤنڈ میں سارے بچے اسمبلی کے لئے جمع تھے‘ شاعر مشرق علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ جوش و خروش سے پڑھی جا رہی تھی۔ ایک جانب تمام اساتذہ کرام سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کھڑے تھے اور طلبہ و طالبات امید کے دیے آنکھوں میں روشن کئے سنہرے مستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے۔ چمکتے دمکتے چہروں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ چند گھنٹوں بعد یہ پھول سے چہرے خاک و خون میں لتھڑ جائیں گے۔ ان کے اجلے یونیفارم ان کے اپنے ہی لہو میں تر ہو کے سرخ ہو جائیں گے اور پھر 16دسمبر کو قوم کو ایک بڑے صدمہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 1971میں وطن عزیز دولخت ہوا تھا۔ آج اتنے برسوں بعد ٹھیک اسی دن پاکستان کی تاریخ کا بدترین المیہ رونما ہوا۔ ظلم اور درندگی کی ایسی داستان رقم ہوئی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کا قتل عام کیا گیا۔
آہ! معصوم کلیوں کو مسل دیاگیا‘ غنچوں کو چٹکنے سے پہلے ہی نوچ کے پھینک دیا گیا‘ اساتذہ کو زندہ جلا دیا گیا‘ نازک جسموں کو بموں سے اڑایا گیا اور قوم کے معماروں کو اندھا دھند فائرنگ کر کے خون میں نہلا دیا گیا۔ چشم فلک حیران ہے‘ پوری دنیا گنگ ہے‘ انسانیت منہ چھپاتی پھر رہی ہے‘ دماغ جیسے ماؤف ہو رہاہے‘ کیا کوئی اتنا بھی ظالم ہو سکتا ہے؟ آخروہ کون سا مذہب ہے ‘ وہ کون سا نظریہ ہے‘ وہ کون سا عذر یا تاویل ہے جو اس بھیانک عمل کو درست قرار دیتا ہے؟ جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں‘ اسپتالوں‘ سکولوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بزرگوں‘ کھیت میں کام کرنے والے دہقانوں پر کوئی حملہ نہیں کرتا‘ کوئی چاہے کتنا ہی شقی القلب کیوں نہ ہو‘ ایسی وحشت و درندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ جس کا مظاہرہ پشاور میں ہوا۔
سناہے اس افسوس ناک واقعے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔ حملہ آوروں نے باقاعدہ پلاننگ کے تحت سکول پہ حملہ کیا۔ وہ چوری کی گاڑی میں آئے‘ پہلے گاڑی کو آگ لگا کر لوگوں کی توجہ اس جانب منذول کرائی‘ پھر عقبی دیوار پھلانگ کر سکول کے احاطے میں داخل ہو گئے۔ دہشت گرد غیرملکی تھے اور زبان بھی غیر ملکی بول رہے تھے۔ ان کو افغانستان سے مانیٹر کیا جا رہا تھا اور وہ وہاں سے باقاعدہ ہدایات بھی لے رہے تھے۔ صبح سے شام تک معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ پہلے سکول کے آڈیٹوریم میں گھس کے بچوں کو مارا‘ پھر لیبارٹری‘ کلاس رومز اور کاریڈورز کو مقتل بنا دیا گیا۔ ہر طرف بارود کی بو پھیل گئی‘ معصوم بچوں کے خون سے فرش رنگین ہو گیا‘ جو بچے ڈر کے مارے بنچوں کے نیچے چھپ گئے تھے‘ انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر نکالا گیا۔ ان کے سر اور گردن میں گولیاں ماری گئیں۔ جس بچے پہ شبہ ہوتا کہ اس میں جان باقی ہے۔ اسے ٹھوکر مار مار کے چیک کیا گیا اور اس پر بھی تشفی نہ ہوئی تو مردہ بچوں پر فائرنگ کی گئی۔ ہائے بے بس ماں نے کس پیار سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو پالا ہو گا‘ کس محبت سے سکول بھیجا ہو گا‘ اس بدنصیب کو کیا معلوم تھا کہ اس کا لال سکول نہیں بلکہ قتل گاہ جا رہا ہے جہاں سے وہ نہیں بلکہ اس کا خون آلود بستہ اور کتابیں ہی واپس آئیں گی۔
149معصوم زندگیوں کے چراغ بجھا دئے گئے‘ اساتذہ کو بھی نہ بخشا گیا‘ سکول کے عملے کو بھی شہید کیا گیا‘ دہشت گردوں نے خواتین ٹیچرز کو نذر آتش کیا‘ سکول کی پرنسپل جنہوں نے بچوں کو تنہا چھوڑنے سے انکار کیا‘ انہیں بھی شہید کر دیا‘ خدا جانے اس سفاک عمل کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اس بہیمانہ قتل عام کو کس سے تعبیر کریں‘ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ دہشت گرد انسان نہیں‘ وحشی درندے ہیں‘ ان کی درندگی پر ابلیس نے ان کو اپنے سے بڑا شیطان مان لیا ہے۔ بچوں اور بڑوں کو بے رحمی سے شہید کرنے والے جہنمی یقیناًاپنے حصے کا عذاب بھگتیں گے مگر وہ والدین جن کے بچے اس سانحے میں جاں سے گزر گئے‘ جب تک زندہ ہیں اولاد کی اچانک اور تکلیف دہ موت کا صدمہ جھیلتے رہیں گے۔ اپنے سرمایہ حیات کو یوں دہشت گردوں کے ہاتھ لٹا کر کون سا خاندان سکون سے جی پائے گا۔۔۔؟ جدائی کا داغ مٹ نہ سکے گا‘ خون کے دھبے دھل نہ سکیں گے‘ زندگی کی آخری سانس تک بچوں کی معصوم شکلیں اور ان کے ننھے کفن ماؤں کو رلاتے رہیں گے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ برسوں سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کو جیلوں میں رکھا گیا اور پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب اس سزا کو بحال کر دیا گیا ہے۔ اس سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے اب واپس تو نہیں آ سکتے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ فردوس بریں میں ان کا مقام ہو گا۔اللہتعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ یہ بچے پاکستان کے بلند ہمت اور بہادر سپوت ہیں جو گولیاں کھانے کے بعد بھی دہشت گردی سے لڑنے کا‘ علم حاصل کرنے کا اور دوبارہ زندگی کے دھارے میں شامل ہونے کا عزم رکھتے ہیں۔ اے عظیم ماؤں کے عظیم بیٹو! ہمیں تم پر فخر ہے۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔