سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ساتویں قسط
تحریر۔شاہدنذیرچودھری
عمران خان نے وسیم اکرم کو زہریلا تیر بنانے کے لئے اس کی تربیت کا جو بیڑا اٹھایا تھا اب اس کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت تھی۔عمران خان انگلینڈ جیسی متعصب ٹیم کو اس کے گھر میں عبرتناک شکست دینا چاہتا تھا اور اس کے لئے وہ تمام کھلاڑیوں کی تربیت بھی ساتھ ساتھ کررہا تھا۔1986ء میں عمران خان نے وسیم اکرم کو انگلش کاؤنٹی کھیلانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ انگلینڈ میں رہ کر ان کھلاڑیوں کو قریب سیدیکھ سکے اور اپنے اندر اعتماد پیدا کر سکے۔وسیم اکرم کے تو وارے نیارے ہو گئے۔عمران خان کی ہدایات پر عمل کرکے اس نے کامیابی کی شاہراہ پر سفر شروع کردیا تھا۔عمران خان کی سفارش پر وسیم اکرم کا ڈر ہم کاؤنٹی کلب پر نوپ فیلڈ سے معاہدہ ہو گیا جس نے اسے پچاس پاؤنڈ فی ہفتہ خرچ دیا۔البتہ پاکستان سے اس کے والد اسے مزید رقم بھیجتے رہے۔
1987ء میں جب عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ پہنچا تو وسیم اکرم اس کی توقعات پر پورا اترا اور عمران خان نے انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر رسوا کیا۔اگرچہ پاکستان نے بڑی محنت کے ساتھ انگلینڈ کو شکست دی تھی مگر انگریز ایمپائروں نے دھاندلی کے ذریعے پاکستان کو ہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔انگریز ایمپائروں کی جانبدارانہ ایمپائرنگ کے نتیجے میں عمران خان نے غیر جانبدار ایمپائروں کا مطالبہ کیا تو انگریز پریس نے عمران خان کے خلاف شرانگیز خبریں پھیلانی شروع کر دیں۔ان حالات میں وسیم اکرم کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس نے ان کے ہیرو۔۔۔بوتھم جیسے کھلاڑی کو اپنی باؤلنگ اور بیٹنگ کے ذریعے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔اوول کے میدان میں وسیم اکرم کو اپنڈکس کی تکلیف ہو گئی۔اسے فوراً ہسپتال لے جایا گیا اور اس کا آپریشن کرکے آرام کے لئے کہہ دیا گیا۔اپنے آخری میچوں میں عمران خان وسیم کی کمی شدت سے محسوس کرتا رہا۔وسیم نے بحران کے اس دور میں بستر علالت کو چھوڑ دیا اور عمران خان کے شانے سے شانہ ملاکر باؤلنگ کراتا رہا۔عمران خان کو وسیم اکرم کا یہ انداز وفا بے حد پسند آیا اور ان کی دوستی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی۔
کاؤنٹی کی دنیا
1987ء میں ورلڈکپ پاکستان اور بھارت میں مشترکہ طور پر ہو رہا تھا۔عمران خان وسیم اکرم کو ہر صورت میں صحت مند دیکھنا چاہ رہا تھا لہٰذا اس نے انگلینڈ سے واپسی کے بعد وسیم اکرم کو مکمل آرام کی دایت کی جس کے نتیجے میں وسیم اکرم مکمل طور پر صحت مند ہو گیا تھا۔ انگلینڈ اور پاکستان ایک ہی پول میں تھے، دونوں ٹیموں کے درمیان نفرت کی ایک نادیدہ دیوار کھڑی ہو چکی تھی۔ پاکستان نے انگلینڈ کو بری طرح شکست دی اور چھ میں سے پانچ میچ جیت کر سمی فائنل میں پہنچ گیا۔
سیمی فائنل میں پاکستان کا آسٹریلیا جیسی نو آموز ٹیم سے ہوا۔پاکستان کوتوقع تھی کہ وہ آسانی کے ساتھ میچ جیت جائے گا مگر پاکستان کے تجربہ کار کھلاڑی آسٹریلیا کے تازہ خون سے شکست کھا گئے اور قذافی سٹیڈیم تلاہوریوں کی آہ و پکار سے گونج اٹھا۔پاکستان کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ یہ چوتھا ورلڈکپ تھا جس میں پاکستان سیمی فائنل میں پہنچنے کے بعد شکست کھا گیا تھا۔عمران خان نے دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تو پاکستان کی شکست کا غم دو چند ہو گیا۔عوام اسے دل سے نکالنا نہیں چاہت تھے۔لہٰذا وسیم اکرم بھی عوام کی اس صف میں کھڑا و گیا جو عمران خان سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لین کا تقاضا کررہی تھی۔مگر عمران خان نے فیصلہ واپس نہ لیا۔انہی حالات میں انگلینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں وسیم اکرم کی ران کی پرانی تکلیف جاگ اٹھی۔ اس تکلیف کی وجہ سے وہ سیریز کے11میچوں میں صرف دو کٹیں لے سکا۔ان نازک لمحات میں عبدالقادر کی لیگ بریک اور گگلی نے وکٹوں کی بارش کر دی اور اس نے سیریز میں30وکٹیں حاصل کرے پاکستانی ٹیم کا مورال بلند کر دیا۔
چھٹی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
1987ء میں وسیم اکرم کی قسمت نے پلٹا کھایا اور اس کی مانگ میں اضافہ ہونے لگا۔صرف پانچ سال کے عرصہ میں وہ ایان بوتھم اور عمران کے پلے کا آل راؤنڈر بن چکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ انگلینڈ کی کاؤنٹیاں اس کے پیچھے پڑ گئیں اور معاہدے کے کاغذات لے کر اس کے گھر پر آنے لگیں۔وسیم اکرم نے حق شاگردی ادا کرکے لئے عمران خان سے مشورہ لیا تو عمران خان نے اسے کچھ مہینے تک انتظار کرنے کے لئے کہا۔اسی اثناء میں شہرہ آفاق بلے باز نیل فیئر برادر نے وسیم اکرم سے رابطہ کیا اور بیش قیمت معاہدہ کے ساتھ لنکا شائر کی طرف سے کھیلنے پر اصرار کیا۔وسیم اکرم جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہتا تھا۔مگر فئیربرادر کے پیہم اصرار پر اس نے6سال کے لئے معاہدہ کرلیا اور کاؤنٹی کھیلنے کے لئے چلا گیا۔اب کی بار انگلینڈ کا ماحول اس کے لئے نیا نہ تھا۔سرد موسموں کی بارش میں وسیم اکرم خوب نہایا دھویا۔ کاؤنٹی کی نرالی اور جدید دنیا دیکھ کر اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ایک روز اس نے اپنی بہن صوفیہ کو فون کرکے بتایا:
’’صوفی!کیا تم یقین کرو گی کہ کاؤنٹی مجھے کیسی کیسی سہولتیں دے رہی ہے ۔تم سنو تو پاگل ہو جاؤ گی۔‘‘
’’کاؤنٹی مجھے وی وی آئی پی کے طورپر ڈیل کررہی ہے میں ایک بڑے سے ہوٹل میں رہ رہا ہوں جس کے کمرے میں نہانے کے ٹب، گرم پانی،نوکرچاکر اور مزے کی بات یہ کہ تو لیہ بھی الگ ملتا ہے۔تم شاید نہیں جانتی ،پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کو صرف ایک باتھ روم اور ایک تویلے پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔مگر یہاں تو وارے نیارے ہیں۔مجھے ایک بڑی سی گاڑی ہوٹل سے لانے اور چھوڑنے کے لئے وقف ہے۔اور تو اور۔۔۔صوفی میں نواحی گاؤں میں ایک چھوٹا سا مکان بھی خرید رہا ہوں
میں تجھے اگلے سال یہاں بلاؤں گا‘‘۔
یہ بات سن کر صوفیہ اچھل پڑی اور اس نے اپنی ماں کو بتایا:’’دیدی!بھائی انگلینڈ میں گھر خرید رہا ہے‘‘۔
’’ہیں‘‘!والدہ حیرت سے چونک پڑیں۔’’یہاں تو اس نے گھر نہیں بنایا اور وہاں نیا گھر خرید رہا ہے۔کیا اس کے پاس اتنے پیسے آگئے ہیں۔اسے کہو پہلے اپنے ملک میں اپنا گھر بنائے۔پھر وہاں خریدے‘‘۔والدہ کا پیغام وسیم اکرم تک پہنچا دیا گیا مگر وسیم اکرم کو اپنا کیرئیر بنانے کے لئے انگلینڈ کی سرزمین پر قدم مضبوط کرنے تھے۔لہٰذا اس نے ایک چھوٹا گھر خرید لیا جواب بھی اس کی ملکیت ہے۔
کاؤنٹی سیزن کا آغاز ہوا تو وسیم اکرم دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے درمیان خود و نہایت پراعتماد سمجھ رہا تھا۔ اس نے اپنے ہی سیزن میں فرسٹ کلاس سینچری اور لگاتار چار گیندوں پر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے فرسٹ کلاس میچوں میں ہیٹ ٹرک بنالی۔لیکن بدقسمتی بھی اس کے تعاقب میں تھی۔دوسرے میچ میں اس کی ران کا درد جاگ اٹھا اور وہ اگ لے سات میچوں کے لئے باہر کر دیا گیا۔وسیم اکرم کے لئے ران کا درد ایک عذاب بن گیا تھا اسے خدشات لاحق ہونے لگے کہ اگر ران کا درد اسی طرح رہا تو وہ اپنے سپنوں کے محل تعمیر نہ کر سکے گا۔ اس پر مایوسی کا دروہ پڑا اور وہ کئی کئی دن تک خود کو کمرے میں بند کرکے سوچتا رہتا تھا۔ایک روزوہ اپنے کمرے میں بیٹھا ٹی وی پر کاؤنٹی کے میچ دیکھ رہا تھا جب عمران خان کا فون آگیا۔
’’ہیلو وسیم!اب کیسے ہو؟‘‘
’’عمران بھائی!میں سخت پریشان ہوں‘‘۔وسیم اکرم نے اپنی ذہنی حالت سے اسے آگاہ کیا۔
’’بھئی تم ذرا کمرے سے باہر تو نکل کر دیکھو۔اپنے دل کو بہلاؤ گے تو ٹینشن بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘عمران خان نے اسے دلاسہ دیا۔
’’مگر عمران خان بھائی مجھے یہاں کا ماحول اچھا لگنے کے باوجود تنہائی کا احساس رہتا ہے۔آپ انگلینڈ کیوں نہیں آرہے۔میں آپ سے مسائل ڈسکس کرنا چاہ رہا ہوں‘‘۔
’’بھئی اب جلد ملاقات ہو گی۔ بہرحال اس بات پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ ران کی تکلیف کیسے ختم ہو گی۔فاسٹ باؤلروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے‘‘۔عمران خان نے اسے سمجھایا۔’’میں خود کئی بار ان فٹ ہوا ہوں اور ان فٹ بھی ایسے مواقع پر جب ٹیم کو میری ضرورت ہوتی تھی،لہٰذا تم تسلی رکھو۔سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
’’عمران خان آپ نے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا کیا سوچا ہے‘‘۔وسیم اکرم نے پوچھا تو دکھ سے بولا’’سچ تو یہ ہے کہ عمران بھائی آپ کے بغیر کھیلنے کا مزہ نہیں آرہا۔پلیز آپ واپس آجائیں‘‘۔
’’ہاں میں سوچ رہا ہوں صدر پاکستان نے بھی کہا ہے کہ میں واپس آجاؤں۔دیکھو اب کیا نتیجہ نکلتا ہے‘‘۔عمران خان نے انکشاف کیا تو وسیم اکرم خوشی سے نہال ہو گیا۔
’’تو کیا میں یہ امید رکھوں کہ1988ء میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی ٹیم میں عمران بھائی شامل ہوں گے‘‘۔
’’عمران خان نے کہا‘‘۔اگر میرا موڈ بن گیا تو پھر تمہیں واپس آنا ہو گا۔
’’آپ کہیں تو میں آج ہی آجاتا ہوں‘‘وسیم اکرم نے کا اور پھر اس نے اپنا کہا ثابت بھی کیا۔
1988ء میں عمران خان ٹیم میں واپس آگیا اور وہ جاوید میاں داد،وسیم اکرم کے علاوہ نئے لڑکوں کے ساتھ ویسٹ انڈیز روانہ ہو گیا۔
جاری ہے۔اگلی یعنی آٹھویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے)۔