بزرگ صحافی اور ٹریڈیونین راہنما افضل خان بھی چل بسے
فیس بک پر فوزیہ شاہد کا پیغام تھا کہ افضل خان امریکہ میں انتقال کرگئے ہیں، پوسٹ پڑھ کر افسوس ہوا اور یہ بھی دکھ ہوا کہ فوزیہ نے دکھ کے ساتھ بری خبر سنائی تو صرف افضل خان ہی لکھا، اس سے صرف جاننے والے ہی مستفید ہوئے، ان کو چاہئے تھا کہ وہ دوچار سطور کا اضافہ کردیتیں تاکہ کچھ اور لوگوں کو بھی اندازہ ہوتا کہ جو چراغ بجھتے جارہے تھے ان میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا، صحافت اور صحافتی ٹریڈ یونین کے اندھیروں کی تاریکی کچھ اور بڑھ گئی کہ افضل خان نہ صرف ایک اچھے اور باوقار صحافی تھے وہ اتنے ہی اچھے ٹریڈ یونینسٹ تھے، افضل خان کا یہ اعزاز بھی تھا کہ وہ متحدہ پاکستان کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل بھی رہے اور بعض دوسرے عہدوں پر بھی منتخب ہوئے، افضل خان سے ہمارا تعلق بھی پی، ایف، یو،جے اور صحافت ہی کے حوالے سے تھا کہ وہ ہم سے کچھ سینئر تھے، وہ اور ہمارے مرحوم دوست ولی محمد واجد دونوں نے امروز ملتان سے صحافت شروع کی اور پی، ایف، یو،جے میں بھی وہیں سے سرگرم ہوئے، دونوں میں تعلقات دوستانہ اور برادرانہ تھے اور اسی طرح ہم سے بھی مراسم ہمیشہ خوشگوار رہے، امریکہ روانگی اور عملی صحافت سے کنارہ کشی (جوعلالت کے باعث تھی) کے بعد تک بھی وہ اسلام آباد میں تھے جہاں ان کا مستقل قیام ہوگیا تھا وہ ٹریڈ یونین سے بھی کچھ دور ہوگئے تھے کہ منہاج برنا اور نثار عثمانی کے بعد تو یوں بھی فیڈریشن برے حالوں میں تھی اور اب تو فیڈریشن کی جگہ معلوم نہیں، کون کون سے گروپ اپنی اپنی اجارہ داری بنائے بیٹھے ہیں۔
ذکر افضل خان کا تھا جو امروز کے بعد انگریزی جرنلزم سے وابستہ رہے اور اہم اخبارات میں رپورٹنگ سے تجزیوں تک میں نام پیدا کیا۔ کچھ عرصہ ہوا، وہ اسلام آباد میں تھے اور ہماری ملاقات کو بھی کافی عرصہ گزر چکا تھا، ایک روز برادرم نصرت جاوید کے کالم میں ان کا ذکر پڑھا تو بات کرنے کا خیال آیا، اپنے پاس موجود نمبر سے رابطہ کی کوشش کی تو ناکام رہے کہ جواب نہ ملا پھر نصرت جاوید سے بات کرکے نمبر معلوم کیا تو اس میں کوئی تبدیلی نہ تھی، البتہ یہ معلوم ہوگیا کہ وہ علیل ہیں اور فون نہیں سنتے صرف متعلقہ کال وصول کرتے ہیں، ہم نے مسینجر سروس کا سہارا لیا اور پیغام دیا کہ فون سن لیں بات کرنا چاہتا ہوں، اس کے بعد ہماری کال وصول کرلی گئی، بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ دل میں خرابی ہوگئی اور بائی پاس کروانا پڑا، جو امریکہ ہی سے کروایا تاہم صحت پالی کے ساتھ ہی مسئلہ بن گیا اور انفیکشن ہوگئی، جو ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتی حتیٰ کہ ڈاکٹروں نے دو پسلیاں بھی نکال دی ہیں، صحت کی دعا اور ملنے کا کہہ کر فون بند کردیا، ویسے یہ پتہ چل گیا کہ افضل خان اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں بھی احترام کی نگاہ ہی سے دیکھے جاتے ہیں اور یوں بھی ایک بزرگ صحافی کی حیثیت سے وہ کبھی کبھار اپنے گھر پر چھوٹی سی محفل بھی جما لیتے اور محترم صحافیوں سے تبادلہ خیال ہوتا، تلخ باتوں کا بھی محبت سے جواب دیتے اور معروضی حالات کا خوبصورت انداز میں تجزیہ بھی کرتے۔
ہمارا ان کے ساتھ واسطہ اور رابطہ پی، ایف، یو، جے ہی کی سرگرمیوں کے حوالے سے رہا وہ منہاج برنا اور نثار عثمانی کا ہاتھ بٹا دیتے تھے اور میٹنگ میں ہمیشہ اچھی اور مفید رائے اور تجویز پیش کرتے تھے، ہمیں تو اپنے پیارے دوست اور استاد محترم سید اکمل علیمی سے علم ہوا کہ افضل خان علاج کے لئے امریکہ منتقل ہوگئے ہیں اور ان کی خان مرحوم سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں، اس کے بعد حال احوال انہی سے معلوم ہوجاتا تھا تاہم اس بار ان کے انتقال کی اطلاع فوزیہ شاہد کی فیس بک پوسٹ سے ہوئی، ہم نے بھی اظہار تعزیت کیا اور پھر اکمل علیمی صاحب سے فون پر بات کی ان سے معلوم ہوا کہ ابھی فوتگی کی خبر تو ان تک نہیں پہنچی لیکن ایک روز قبل رابطہ کی کوشش پر معلوم ہوگیا تھا کہ ان( افضل) کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے، بہر حال وہ اللہ کو پیارے ہوچکے بہت ہی سینئر، ہمدرد اور اہل تر صحافی تھے اور پی، ایف، یو، جے کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے والوں میں سے تھے، ہمیں یاد ہے کہ 1974ء میں جب ہمارے ہمراز احسن اور اورنگ زیب سمیت 39کارکنوں کو محترم عباس اطہر مرحوم نے روزنامہ مساوات سے فارغ کردیا اور بحالی کے لئے پی، ایف، یو، جے نے تحریک چلائی تو افضل خان بھی سرگرم تھے، لاہور میں فیڈریشن کے فیصلے کے مطابق ہر روز گرفتاریاں دی جاتی تھیں، گرفتار ہونے والوں میں صحافتی اخباری صنعت کے کارکن، مزدور اور دانشور بھی ہوتے تھے، افضل خان نے بھی خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا اور کیمپ جیل لاہور پہنچ گئے، ہماری ڈیوٹی ان سب حضرات کی دیکھ بھال اور جیل میں کھانا پہنچانے کی تھی، تاہم ایک روز ہماری بھی باری آئی اور ہم گرفتاری پیش کرکے کیمپ جیل پہنچے تو افضل خان پہلے سے موجود تھے۔
اگلے ہی روز انہوں نے ہمیں اعتماد میں لیا اور بتایا کہ بی، کلاس میں ان کے ایک دوست ہیں اور انہوں نے ملنے کے لئے بلایا ہے، ہم نے بیرک نمبر 10سے بی، کلاس تک کے سفر کا اہتمام کیا اور ہم تین دوست وہاں پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں ہمارے شہردار، بلکہ محلے دار حافظ صمد ہیں جو افضل خان کے بھی ملنے والے ہیں، وہاں گپ شپ ہوئی اور حافظ صمد نے خاطر مدارت کرکے اگلے روز کے لئے پھر دعوت دی اور ہم لوگ ملنے گئے اسی روز حکومت نے سب گرفتار حضرات کی رہائی کا حکم دے دیا اور ہم اکٹھے باہر آئے، افضل خان خود بھی اپنی بیماری کے باعث مایوس تھے تاہم جب تک سانس تب تک آس کے مطابق آخری لمحوں میں امریکہ جاکر علاج کا طے کیا اور وہیں کے ہو رہے، ہمارے ملک میں صحافت اور خصوصاً ٹریڈ یونین ازم کا جو حال ہے اس کے باعث ہم بابے لوگ بہت پریشان اور مایوس ہوتے ہیں ایسے میں افضل خان جیسا شخص رخصت ہوتو یہی کہا جاسکتا ہے، اک چراغ اور بجھا اور اندھیرا اور بھی گہرا ہوگیا، اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرمادے۔