شہباز،عمران کی بریت ۔۔۔۔۔۔انتخابات یقینی!

شہباز،عمران کی بریت ۔۔۔۔۔۔انتخابات یقینی!
 شہباز،عمران کی بریت ۔۔۔۔۔۔انتخابات یقینی!

  

’’ترین حواس،کپتان جہاز کھو بیٹھا‘‘۔ ’’کپتان اہل لیکن انکی جیب کٹ گئی‘‘۔سیاسی کیسوں میں انصاف!سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری ارسلان افتخار کے کیس میں صادق اور امین تھے!’’چنگے تے شہبازشریف تے شاہ محمود قریشی رہ گئے‘‘۔’’نہ رہے گا جہاز ۔۔۔۔نہ اڑے گا خان‘‘۔’’عمران خان کی جہانگیر ترین کو سیکرٹری جنرل کے طور پر کام جاری رکھنے کی ہدایت‘‘۔شکریہ نوازشریف تمام کیسز کی ’’ماں‘‘مرگئی،۔۔۔۔حدیبیہ ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل مسترد’’کپتان ناٹ آؤٹ‘‘۔’’عمران خان بچ گئے جہاز ڈوب گیا‘‘۔’’غلط استعمال پر اے ٹی ایم کارڈ ضبط‘‘،’’مسلم لیگ والو شرم کرو۔ایک نااہل شخص کے ساتھ کھڑے ہو‘‘۔عمران خان۔


’’جہانگیر ترین بددیانت اور نااہل ہیں‘‘ سپریم کورٹ ۔’’میں جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘عمران خان،اسحق ڈار کی طبیعت سنبھلنا شروع ہوگئی سکور2-2نواز،جہانگیر نااہل۔ شہباز،عمران بری! سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس طرح کے عوامی تبصرے جاری ہیں بلکہ انہیں سوشل میڈیا کے ٹوٹے بھی کہا جاسکتا ہے ان میں سے بیشتر چست تبصرے صرف تفریح طبع کیلئے ہیں ۔تاہم درج بالا تبصروں میں سے آخری ٹوٹا یعنی شہباز ،عمران بری ایسا ہے جس سے مستقبل کی سیاسی صورتحال کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔


دارالحکومت میں گزشتہ کئی مہینوں سے بے یقینی کے سائے مسلسل گہرے ہوتے جارہے تھے جبکہ حال ہی میں سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کی جانب سے دی جانیوالی دہائی اس صورتحال پر تصدیقی مہر تھی ۔تاہم گزشتہ روز سپریم کورٹ میں دواہم سیاسی فیصلوں سے ایک بات مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے کہ نظام کو تلپٹ کرنے کی کوئی بھی آپشن اب شاید قابل عمل نہیں رہی،اقتدار کی تبدیلی کی واحد اور ٹھوس آپشن اب عام انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلوں سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ جہاں ملک کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ناٹ آؤٹ قراردیاگیا تو دوسری جانب اس وقت مرکز اورپنجاب میں برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے خلاف حدیبیہ کیس کی خطرناک بال کو بالآخر ’’نوبال‘‘قراردیدیا گیا ہے۔


پاکستان مسلم لیگ ن سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلسل ’’زیرعتاب‘‘ ہونے کے باعث ڈانواں ڈول نظرآرہی تھی اگرچہ نوازشریف وزارت عظمی کے عہدہ سے ناایل ہونے کے باوجود پارٹی میں اپنی مقبولیت کی بنا پر دوبارہ صدرتومنتخب ہوگئے ہیں لیکن بیگم کلثوم نوازکی علالت کی بدولت ان کے لندن کے پھیرے اوراحتساب عدالت کے چکروں نے پوری ن لیگ کو چکرا کررکھا ہوا ہے ،جبکہ لگ رہا تھا کہ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف بھی حدیبیہ کیس کے گرداب میں پھنس جائیں گے ان معروضی حالات میں ن لیگ کے سامنے بڑاسوال تھا کہ آئندہ عام انتخابات کو کون لیڈ کریگا ؟اس اہم ترین سوال کے جواب میں ن لیگ کے سامنے بے یقینی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اگر خدانخواستہ کپتان عمران خان نااہل ہوجاتے یا شہبازشریف کے خلاف حدیبیہ کیس کھل جاتا یا دونوں شخصیات ان کیسوں سے متاثر ہوجاتیں تو ملکی سیاست میں ایسا اودھم مچتا کہ آئندہ عام انتخابات کا انعقاد شاید ایک خواب ہی ثابت ہوتا اب کم از کم گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے دونوں بڑے فیصلوں سے ملک کی دونوں بڑی حریف سیاسی جماعتوں کی قیادت آئندہ انتخابی دنگل میں کود سکے گی۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ملک کے معروضی سیاسی حالات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو بہت بڑا قانونی اورسیاسی ریلیف ملا ہے،سپریم کورٹ کے رواں سیاسی کیسوں کے فیصلے کے نتیجہ میں جو ٹھوس چیز سامنے آئی ہے وہ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی سیاست سے اور دلوں سے تو نہیں لیکن حکومتی نظام سے بے دخلی ضرورہے جبکہ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف آئندہ انتخابی دنگل میں حصہ لیتے ہوئے ملک کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں کپتان کے حریف کے طورپر اہم کرداراداکرینگے۔


دارالحکومت میں بیشتر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں اقتدارکے کھیل کے کھلاڑی کسی نہ کسی جرگہ،سمجھوتہ،ڈیل یا این آر اوکے تحت ہی حصہ لے سکتے ہیں،کچھ لوگ گزشتہ دوتین روز میں ہونیوالی سیاسی پیش رفت کو بھی سازشی تھیوری قراردے رہے ہیں کہ دو روز قبل ایک طرف سپیکرقومی اسمبلی خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ،وزیراعلی پنجاب شہبازشریف اور وزیرخارجہ خواجہ آصف کے ساتھ لندن میں ن لیگ کے سربراہ نوازشریف سے اہم مذاکرات کررہے تھے جبکہ بعض لوگوں کے مطابق شہباز شریف کی باڈی لینگوئج میں بھی خاصا اعتماد نظرآرہا تھا ۔


دوسری طرف جب کپتان عمران خان کی اہلیت کے حوالے سے اہم ترین کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا تو کپتان نے عین اسی وقت سندھ میں جلسے سے خطاب رکھا ہوا تھا،لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ کپتان کو ایسا بلا کااعتماد کہاں سے ملا کہ انہوں نے عین فیصلے کے وقت اپنا جلسہ رکھا ہوا تھا،جبکہ حدیبیہ کیس کی قدرے یقینی ایل بی ڈبلیو گیند کوبھی نوبال قراردیدیا گیا۔حیرت انگیز طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی وطن واپسی پرپارلیمانی رہنماؤں سے حدبندیوں کے معاملہ پر ’’ملاقات بھی فوری رنگ لے آئی‘‘۔تاہم اس سازشی تھیوری کے خالق اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ نوازشریف ،مریم نواز شریف کے قابل اعتماد وفاقی وزیر دانیال عزیز تو عدالتی فیصلوں کو ایک سکرپٹ کا حصہ اورسیاسی انجینئرنگ قراردے رہے ہیں جبکہ مریم نوازکے ٹویٹ بھی کچھ اور کہانی بتارہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ قومی اسمبلی میں کورم کا ایشو،حلقہ بندیوں کے بل کا سینٹ میں غیرضروری التواء ،پارٹی ڈسپلن کا فقدان جیسے تمام پراسرارایشوز کا ن لیگ میں کمان کی سافٹ انداز میں کسی تبدیلی کی کوشش سے کوئی تعلق ہے،لگتا ہے ن لیگ کے اندر مزاحمت اور مفاہمت میں ہنوز کشمکش جاری ہے۔

مزید :

کالم -