بنگلا دیش کا قیام سانحہ نہیں‘ سوچی سمجھی سازش تھی‘ڈاکٹر محمدعلی تھلہو
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے تحقیق پر مبنی کتاب سانحہ یا سازش کی رونمائی کے دوران مصنف و محقق ڈاکٹر محمد علی نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں بین الاقوامی شریاتی اداروں کی 125 سے زائد چشم کشا شواہد پیش کئے گئے ہیں جس کی بنیاد پر اس واقعے کے حوالے سے پیدا ہونے والی کئی غلط فہمیوں کو مدلل دلائل سے دور کیا جاسکے گا۔ بین الاقوامی نشریاتیاداروں کی رپورٹس کر پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنگلا دیش کا قیام سانحہ نہیں بلکہ ایسی بہت بڑی گھناؤنی سازش تھی جو 1970 کے الیکشن سے بہت پہلے تیار کی گئی اور اس پر الیکشن کی آڑ میں عمل کرنے کا ایسا طریقہ نکلا گیا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے سے ہوجانے سے ملک پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا یا دولخت کرنے کا جواز ملتا، عوامی لیگ کی طرف سے بھارت کی ہدایات پر بنگالیوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کی گئی اور الیکشن نتائج کافائندہ لیتے ہوئے یہ بتادیا گیا کہ بھٹو اسمبلی اجلاس بلانے میں رکاوٹ پیدا کررہا ہے تاکہ اقتدار انہیں منتقل نہ ہوسکے لیکن اس کے برعکس مجیب الرحمن خود بھٹو کوخفیہ طور پر دو الگ پاکستان بنانے پر آمادہ ہونے کی صورت میں مغربی پاکستان کا اقتدار اس کے حوالے کرنے کی پیشکش کرچکا تھا، عوامی لیگ کی طرف سے مشرقی پاکستان کے حالات کو منظم طریقے سے خراب کرکے آپریشن کے لیے ماحول کو سازگار بنایا گیا تھا، شیخ مجیب کسی بھی صورت میں پاکستان کے ساتھ چلنے کو تیار نہ تھا، اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کیک بھٹو سمیت اس وقت کی حکومت نے بارہا کوشش کی جس کو عوامی لیگ کی جانب سے روکا گیا، بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھٹو مشرقی پاکستان میں شروع کیے گئے آپریشن اور بنگلا دیش کے قیام کا سخت مخالف تھا اور وہ عوامی لیگ کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی دعوت دیتا رہا تھا۔ڈاکٹرتھلہو نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی رپورٹ کا جائزہ لینے سے مشرقی پاکستان میں آپریشن کے دوران لاکھوں بنگالیوں کے ہلاک ہونے کی تردید ہوتی ہے۔ ان رپورٹس میں پاکستان فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کی ہلاکتوں کو مبالغہ اور پروپیگنڈا قرار دیا گیا ہے اس کے برعکس لاکھوں بہاریوں اور پنجابیوں کے قتل اور ان پر غیر انسانی سلوک ہونے کے شواہد ملتے ہیں بنگلادیش میں بیشتر بہاری مردوں کو ذبح کرکے اجتماعی قبروں میں پھینک دیا گیا اور ایسے کئی قتل صحافیوں کے سامنے کیے گئے تھے، بنگلادیش کے قیام کے بعد غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا اور بہاریوں کی ملکیتوں کو ؟؟ کرکے ان کو مستقل کیمپوں میں منتقل کردیا گیاجس میں وہ آج تک مقیم ہیں۔ڈاکٹر محمد علی تھلہو نے مزید بتایا کہ پاکستانی فوج نے 1971 کی جنگ میں جرأت کے ساتھ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا اور کئی محازوں پر فتح حاصل کرکے ان کو بھاگنے پر مجبور کردیا اور جس واقعے کو سقوط ڈھاکہ کا نام دیا جاتا ہے اس کو کسی صورت میں فوجی شکست تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ بھارت کی جانب سے جنگی قانون کی خلاف ورزی اور بزدلی کا کھلا مظاہرہ تھی، بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے اچانک تمام غیر بنگالی شہریوں کو شہر خالی کرنے کا نوٹس دینے کے بعد بھارتی جیٹ جہازوں نے شہری آبادی پر بمباری شروع کی اور گولے برسا کر ہزاروں غیر بنگالی شہریوں کو ہلاک کردیا، شہریوں کی زندگی بچانے کے لیے فوج پر ہتھیار ڈالنے کیک شرط عائد کیک گئی، بھارتی جہازوں کی ڈھاکہ پر بمباری اور شہریوں کی ہلاکتوں کی رپورٹنگ آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے، اس لیے ہمیں اپنی فوج کو سلام پیش کرنا چہایے جنہوں نے شہریوں پر بمباری بند کرنے کی شرط کو قبول کرتے ہوئے بھارت سے مزید جنگ نہ کرنے کا اعلان کیا اور عام شہریوں کی زندگی بچائی۔ڈاکٹر محمد علی تھلہونے صحافیوں کو بھارتی سازش کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت نے شیخ مجیب کی گرفتاری کے دوسرے روز ہی نہ صررف سرکاری طور پر مشرقی پاکستان میں ہونے والی بغاوت کی حمایت اور مدد کا اعلان کیا بلکہ بھارتی سرحدوں کے اندر رکھی؟؟ کو تربیت اور مغربی بنگالیوں کو بھرتی کرکے پاکستان بھیجا گیا۔ پاک فوج کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کو بھارتی کو رکھا سپاہیوں کا مقامی لباس میں ؟؟ باہمی کے نام پر جنگ کرنے اور باوردی گرفتار فوجیوں کے دیے گئے ثبوت بھی ان رپورٹ کا حصہ ہیں، اس سازش کا اعتراف کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کہا تھا کہ اگر شیخ مجیب گرفتار نہ ہوتا پاکستان سے جنگ ٹل جاتی اور موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مکتی باہمی کی مدد کرنے والی خبروں کیک تائید کی اس طرح بین الاقوامی رپورٹ بھارت کیک کسی دوسری آزاد ریاست کے اندر مداخلت نہ کرنے والے قوانین کی خلاف ورزی کے مستند ثبوت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بنگلا دیش کے قیام کے تین سال بعد تک بھی مشرقی حصے کو پاکستان میں دوبارہ شامل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا اور اس تسلسل میں اس کی طرف سے شیخ مجیب کو ملک کا سربراہ بننے کے لیے اپنے صدر کا عہدہ چھوڑ نے کی پیشکش بھی کی گئی تھی، بھٹو نے شیخ مجیب کو پھانسی کی سزا سے بچایا اور اس سے قرآن پاک پر عہد لیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر چلے گا جس کے بعد وہ آگے چل کر مکر گیا، شیخ مجیب تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے باوجود قائد اعظم سمیت کسی پاکستانی رہنما کو اپنا قائد تسلیم نہیں کرتا تھا اور نہ اس کی زندگی میں قیام پاکستان کے لیے کوئی خوشی تھی، جس بات کا اندازہ کتاب میں پیش کیے گئے اس کے انٹرویوز سے لگایا جاسکے گا۔ شیخ مجیب کو بھارت سے قریبی تعینات رکھنے کی وجہ سے اس کی اپنی پارٹی کے اہم ممبران مشتاق خوند کار اور میجر ڈائم کی مشاورت کے بعد قتل کیا گیا تھا۔کتاب میں مستند حوالوں کے ساتھ یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ الیکشن کے بعد ان کے حق غضب کرنے کے بجائے بھٹو سمیت حکومتی سطح پر اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ نئی حکومت مشرقی پاکستان کو مجموعی وسائل اور نوکریوں سے 55 فیصد حصہ دینے اور مشرقی پاکستان کے انتظامی معاملات میں دخل نہ دینے کو تیار ہوگی، بھٹو مشرقی پاکستان کی عوام سے اس بات پر عمل کرنے کے لیے آخری موقع فراہم کرنے کی اپیلیں کرتا رہا تھا کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھول کر جمہوری اور آئینی طریقے سے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں، بھائیوں بنگلا دیش کا قیام بھارت کی خواہش تھی، بھٹو پر’’ ادھر ہم‘‘ اور ’’ادھر ہم‘‘کا حوالہ دینے والی اس خبر کی مستند تردید اور بھٹو کی پاکستان کو بچانے کی کوششوں کو اس کتاب میں پڑھنے اور سی ڈی میں آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کے احسان مند رہیں گے۔آخر میں ڈاکٹرتھلہونے اپنی کتاب میں دیے گئے حوالوں سے بتایا کہ بنگلا دیش کے قیام کا فیصلہ وہاں کی عوام کا نہیں بلکہ ان پر بھارتی فوج کی مدد سے مسلط کیا گیا تھا جس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب 1974 میں بھٹو بنگلادیش کے دورے پر گئے تو ڈھاکہ میں ہزاروں بنگالی اس سے ہاتھ ملانے کو ترس رہے تھے جن کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑی بھٹو کا بنگالی عوام کی طرف سے شاندار استقبال دیکھ کر بھارت سخت پریشان ہوا اور شیخ مجیب کو ایسا استقبال دوبارہ نہ ہونے کی خاص ہدایات کی تھی۔ ڈاکٹرتھلہو نے کہا کہ کتاب جنوری 2018 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی جس کے ساتھ تمام ویڈیو حوالوں کی سی دی منسلک ہوگی