عدلیہ آزاد ہے ،ہم پر دباﺅ ڈال کر فیصلہ لینے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا:چیف جسٹس پاکستان کا بارکونسل سے خطاب
لاہور(نامہ نگارخصوصی )چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ کوئی پیدا ہی نہیں ہوا جو ہم پر دباو ڈال کر اپنی مرضی کافیصلہ لے سکے۔ ججوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، جمہوریت نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔
لاہور میں پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام حصول انصاف کے لئے سائلین کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے موضوع پرسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مقدمات میں زیادہ فیسیں وصول کرنے والے وکلا ءکو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس پاکستان سے بڑا عہدہ اور کیا ملنا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان سے بڑا عہدہ کوئی نہیں اس سے آگے کیا لینا ہے۔ساتھی ججوں سمیت آئین کے تحفظ کی قسم کھارکھی ہے اپنے بچوں کو شرمندہ چھوڑ کر نہیں جاﺅں گا۔انہوں نے کہا کہ مبصرین نے عدالتی فیصلہ پڑھا نہیں ہوتا اور تبصرے کر رہے ہوتے ہیں، مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ بھی جمعہ کو آنا ہے، یہ میرا ہی فیصلہ تھا کہ کیسوں کے فیصلے ایک ماہ میں کردیئے جائیں۔عدلیہ پر کسی قسم کا کوئی دباو نہیں، جتنے فیصلے کئے آئین اور قانون کے مطابق کئے، ہر جج اپنے ضمیر کو سامنے رکھ کر فیصلے کررہا ہے، اگر عدلیہ آزاد نہ ہوتی ہوتا تو حدیبیہ پیپر ملز کا جو فیصلہ آیا وہ نہ آتا۔اب تو وکلا ءکی فیسیں 25لاکھ سے اڑھائی کروڑ تک جاپہنچی ہیں، کیس بنتا نہیں اور وکیل سائل کو کہہ دیتا کہ میری جج سے بات ہوگئی ہے ،کیا پاکستان بار نے ایسے وکلا ءکے خلاف کارروائی کی؟
وکلاءکی طرف سے آئے روز کی ہڑتالوں پر تنقید کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بات بات پر ہڑتال سے انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے ۔پاکستان میچ جیت جاتا ہے تو وکلا ءہڑتال کردیتے ہیں، ہم وکلا ءکو ہر سہولت دینے کے لئے تیار ہیں ،وکلا ءبھی آج سائلین کو فیسوں میں رعایت کا اعلان کریں۔انہوں نے کہا کہ انصاف میں تاخیر کا بڑا سبب ججوں پر ہونے والی تنقید ہے، یہ عدلیہ کا ادارہ آپ کا بابا ہے ،آپ اپنے بابے کو گالیاں نہ دیں۔جوڈیشری کا ادارہ سب کا بزرگ ہے ، آپ کا بابا ہے ۔اگر کسی کے خلاف فیصلہ آئے تو عدلیہ کو گالیاں نہیں دی جا سکتی ۔کون کہتا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے پلاننگ کے تحت ہوتے ہیں؟کس کی جرات ہے کہ ہمیں پلاننگ کا کہے ۔میں نے پہلے بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کے حق میں فیصلے دیئے ،اگر ملک میں جمہوریت نہیں تو آئین نہیں اور اگر آئین نہیں تو ملک کو نقصان ہو سکتا ہے،ہم سب ججوںنے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے ۔
مختلف نیوز چینلز پر تبصروں کے حوالے سے کہا کہ مبصرین فیصلہ پڑھے بغیر ایسی رائے دیتے ہیں جس کا ہمیں بھی پتہ نہیں ہوتا ،اگر کسی کا زور چلتا ہوتا تو حدیبیہ کا فیصلہ ایسا نہ آتا جیسا آیا،کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ تقسیم ہو گئی ہے ایسا کچھ بھی نہیں ،سب اپنا کام کر رہے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی حالیہ تقرریوں پر مختلف حلقوں کی تنقید کے حوالے سے کہا کہ کچھ لوگوں کی اہلیت پر سوال اٹھتے ہیں ،قابل ججوں کے تقرر کے لئے سب سے پہلے بار کے ارکان ،حکومت اور پھر ججوں سے رائے کی ضرورت ہے. "ہم سب سے پہلے بار سے پوچھتے ہیں کیونکہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ججوں کا نقطہ نظر بار بار اثر انداز ہو۔انہوں نے کہا کہ ایک جج میں تین خصوصیات ہونی چاہئیں ،وہ اچھی ساکھ رکھتا ہو ،اسے قانون کا علم ہو اور اس کا رویہ مثالی ہو ،ان میں سے سب سے اہم چیز جج کی ساکھ ہے ۔ ججوں کی اہلیت کا جائزہ لیا جائے گا لیکن وہ کسی خاص پارٹی کی رکنیت کو بڑھانے کے لئے تقرریوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کچھ لوگ اپنی مرضی کے لوگوں کے تقرر کے لئے ان تقرریوں پر تنقید کرتے ہیں ،میں ایسی تقرریوں کی کوششوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ممکن ہے کچھ کم اہلیت کے لوگوں کا تقرر ہوگیا ہو لیکن ہمیں اس کی تحقیقات کرنا ہوں گی کہ ایسا کیوں ہوا۔انہوں نے کہا کہ وکلاءتو بھاری فیسیں لیتے ہیں لیکن ان دنوں ججوں کے حالات بہت سخت ہیں، ایک جج کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ادارہ کو بہتر بنانا میری ذمہ داری ہے، میں وکیلوں اور ججوں دونوں میں انتہائی اعلیٰ ایمانداری چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ جج کسی سازش اور پلان کا حصہ نہیں ہیں ،ہمیں عدلیہ پر فخر ہونا چاہیے ،ہم نے اندرونی طور پر بھی عدلیہ کو آزاد کررکھا ہے ،تمام اداروں کی بقاءجمہوریت سے وابستہ ہے ۔