سکھا شاہی نہیں، قانون کی حکمرانی
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں کام نہ کرنے والے بیورو کریٹس کو نکال دیں،ایسے وزراء بھی گھر جائیں گے پھر کوئی نہ کہے مجھے کیوں نکالا، اب ہمیں کسی فارورڈ بلاک کا ڈر نہیں، وزراء اور منتخب لوگوں نے کام نہیں کیا تو لوگ ڈنڈے ماریں گے، پنجاب کے وزیراعلیٰ ایماندار، دلیر اور سادہ ہیں، ان کا کوئی کیمپ آفس ہے نہ پروٹوکول، مافیاز کے خلاف کھڑے ہیں، پختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی سچے اور سادہ انسان ہیں، ان کی ایمانداری پر پورا یقین ہے، وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے،انہوں نے تمام وزراء کو ہدایت کی کہ دفاتر میں حاضری یقینی بنائیں، کیونکہ کارکردگی مانیٹر ہو گی، قوم کی نظریں آپ پر لگی ہیں، اِس لئے مزید تیزی سے کام کرنا ہو گا، جو وزیر شام تک دفتر نہیں بیٹھے گا اُسے ہٹا دیا جائے گا۔ اگر کوئی بیورو کریٹ رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو اُس کے خلاف ایکشن لیں۔انہوں نے اِن خیالات کا اظہار سو روزہ پلان کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے وزراء کو کام کرنے اور شام تک دفتروں میں بیٹھنے کی جو ہدایت کی ہے اچھی بات ہے، اور جلد ہی پتہ بھی چل جائے گا کہ اُن کے وزیر اِس ہدایت پر کس حد تک عمل کرتے ہیں،لیکن اسی تقریب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’وزیراعلیٰ کوئی دباؤ برداشت نہیں کریں گے‘‘ اس سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کے حلقوں کی طرف سے وزیراعلیٰ پر کوئی نہ کوئی دباؤ تو ہو گا کہ تقریب میں خصوصی طور پر اس کا ذکر کرنا پڑا، ایسی اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں کہ وزیر دفاع پرویز خٹک اپنے بعض ساتھیوں کو وزیر بنوانے کے لئے کوشاں ہیں اور انہوں نے پارٹی کے اندر اپنا کوئی گروپ بھی بنایا ہوا ہے،ممکن ہے فارورڈ بلاک کا ذکر کر کے وزیراعظم نے ایسے ہی کسی حلقے کو بالواسطہ پیغام دیا ہو، انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کو بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی طرح سادہ اور سچا انسان سمجھتے ہیں۔
صوبے کے وزیر اگر ایسے کام کرتے ہیں، جو لوگوں کو خوش آئیں اور اُن کے ذریعے عوام کے مسائل حل ہوں تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے، حکومتیں اگر عوام کے مسائل حل کریں اور اُن کی دُعائیں لیں تو ووٹر اس کا صِلہ دوبارہ کامیابی کی شکل میں دیتے ہیں۔ تحریک انصاف پانچ سال تک خیبرپختونخوا میں حکمران رہی،اُس وقت اسے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں تھی، اب صوبے میں دوتہائی اکثریت سے حکومت کر رہی ہے،اس کی توجیہہ یہی ہے کہ عوام حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی سے خوش ہیں۔وزیراعظم نے وزراء کو خبردار بھی کیا ہے اور کہا ہے،جو کام نہیں کرے گا اُسے نکال دیا جائے گا، وزیروں کا تعلق اُن کی اپنی سیاسی جماعت سے ہے اِس لئے وہ کسی کو نکالیں یا رکھیں، بطور پارٹی چیئرمین یہ اُن کا اختیار ہے،لیکن اسی سانس میں انہوں نے بیورو کریٹس کو نکالنے کی جو بات روا روی میں کر دی ہے وہ اسی طرح ہے جیسے انہوں نے لاہور میں یہ نادر شاہی حکم جاری کر دیا تھا کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں 48گھنٹے میں گرا دی جائیں اور اس پر عمل بھی شروع کرا دیا گیا تھا، جس کی تصویر بھی پورے اہتمام کے ساتھ جاری کر دی گئی،لیکن لاہور ہائی کورٹ نے یہ کام رکوا دیا، اب حکم امتناعی میں مزید توسیع کر کے فاضل عدالت نے اس سلسلے میں ضروری کوائف طلب کر لئے ہیں،عمران خان کہتے تو یہی ہیں کہ دوسرے لوگ بادشاہیاں کرتے رہے،لیکن کیا وہ غور فرمائیں گے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا حکم جس انداز میں دیا گیا وہ کسی بادشاہی حکم سے کس طرح مختلف تھا، نہ کوئی تخمینہ لگایا گیا نہ کوئی ٹینڈر طلب کیا گیا، نہ یہی بتایا گیا کہ اس کی جگہ جو جنگلہ لگے گا وہ کیوں لگانا ضروری ہے اور اس پر کتنا خرچ آئے گا ،اچھی بھلی دیوار گرا کر گڈ گورننس کی کون سی مثال قائم کر دی جائے گی،بادشاہ بھی تو یہی کچھ (یا ملتا جلتا) کرتے تھے، مقام شُکر ہے کہ یہ کام اب رُکا ہوا ہے۔
بیورو کریٹس کو ہٹانے کا حکم بھی دیواریں گرانے کے حکم سے یوں مختلف نہیں ہے کہ بیورو کریٹس ایک قانون اور ضابطے کے تحت ریاست کے ملازم ہوتے ہیں اُن کے فرائض کی نوعیت طے شدہ ہوتی ہے، جس طرح اُنہیں ملازم رکھنے کا ایک طریقہ ہے اسی طرح اُنہیں برطرف کرنے کا بھی ایک ضابطہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی حکمران، چاہے وہ صدر ہو یا وزیراعظم، کسی سرکاری افسر سے خوش نہ ہو تو اُسے گھر کی راہ دکھا دے، دفتر کے ایک کلرک کو بھی اگر خلافِ ضابطہ نکالا جائے گا تو وہ ریلیف کے لئے عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے، ماضی میں ہم نے ایسے بہت سے افسر بحال ہوتے دیکھے ہیں،جنہیں کسی حکمران نے ناخوش ہو کر ضابطے کی کارروائی مکمل کر کے بیٹھے بٹھائے برطرف کر دیا تھا، ایسے ملازمین نے بحالی کے بعد سالہا سال کی تنخواہیں بھی وصول کیں، جہاں تک کسی وزیراعلیٰ یا صوبائی وزیر کا تعلق ہے اُنہیں یہ اختیار کب سے مل گیا کہ وہ کسی بیورو کریٹ کو جو اُن کی ہاں میں ہاں نہ ملاتا ہو، نکال دیں، بیورو کریٹس کسی حکومت کے نہیں ریاست کے ملازم ہوتے ہیں اور بان�ئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پشاور ہی میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’پہلی بات جو مَیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت یا سیاست دان کا اثر نہیں لینا چاہئے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی طرح کے دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہئے،بلکہ عوام اور مملکت کے سچے خادم کی حیثیت میں اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے بجا لاتے رہئے، خدمت مملکت کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے،جو ریڑھ کی ہڈی جسم کے لئے‘‘۔
اگر سرکاری ملازمین قائداعظمؒ کے اس فرمان کو حرزِ جاں بنا کر سیاسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر مُلک اور عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور کسی وجہ سے ایسا کوئی سرکاری ملازم کسی وزیر کو پسند نہیں تو کیا وہ ایسے سرکاری ملازم کو وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نکال دے گا؟ نہیں،جناب نہیں، ریاستی امور اس طرح نہیں چلائے جا سکتے۔ اگر ایسا ہو گا تو افراتفری پھیلے گی اور نہ صرف سرکاری ملازمین بدظن ہوں گے،بلکہ معاشرہ بھی بطور مجموعی ایسے رویئے کے خلاف ردعمل ظاہر کرے گا اور عدالتیں بھی خلافِ قانون برطرفیوں کو روک دیں گے، وزیر تو سیاسی عمل کے ذریعے بنتے ہیں اور وزارتیں وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے، وہ جسے چاہیں رکھیں، جسے چاہیں نکالیں، چاہیں تو اچھے خاصے وزیر کو کام کرتے ہوئے بھی گھر بھیج دیں اور نہ چاہیں تو محض کسی کی چرب زبانی سے متاثر ہو کر اس کے صدقے واری جاتے رہیں، وزیروں کی حیثیت کو مرغانِ دست اموز کی طرح ہوتی ہے کوئی انہیں نکالے یا رکھے، لیکن ریاست کے ملازمین کو نہ تقریبات میں اس طرح اعلان کر کے نکالا جا سکتا ہے نہ کسی وزیراعلیٰ کو قانون یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جس افسر کو پسند نہ کرے اسے گھر بھیج دیں،پاکستان میں سکھا شاہی نہیں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے اور اگر کوئی وزیراعظم بھی ایسے اضطراری اور من پسند احکامات جاری کرے گا تو دیواریں گرانے کی طرح اس کا نوٹس بھی لیا جائے گا اور عین ممکن ہے ایسے احکامات بھی دھرے کے دھرے رہ جائیں۔