آصف علی زرداری، کیا کر رہے ہیں؟
پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے صدر، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین، سابق صدرِ مملکت اور قومی اسمبلی کے رکن آصف علی زرداری آج (ہفتہ) حیدر آباد میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں،عوامی اجتماعات سے ان کے خطاب کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ سے جاری ہے،مجموعی طور پر قریباً سارے جلسے سندھ میں کئے گئے، ایک جلسہ جنوبی پنجاب میں بھی ہوا اور یہ بھی سرائیکی بیلٹ میں تھا۔ یوں یہاں سندھ اور پنجاب میں کوئی فرق نہیں تھا۔اِس دوران پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی بلاول بھٹو نے گلگت، بلتستان کا دورہ کیا اور رابطہ عوام مہم کا آغاز کیا۔انہوں نے پنجاب کا دورہ بھی کرنا تھا، جس کے لئے پروگرام بھی بنا دیا گیا،لیکن بغیر کسی اعلان کے لئے یہ پروگرام موخر کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ بلاول کو آرام دیا جائے اور زرداری خود میدانِ عمل میں اُتریں۔
یہ فیصلہ اسلام آباد کے مشاورتی اجلاس میں کیا گیا، جو نیب کی طرف سے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو آف شور کمپنی کے حوالے سے طلب کرنے پر ہوا۔اس اجلاس میں نیب کی سرگرمیوں اور اس کی تحقیقات کا جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ حالات حاضرہ میں خود زرداری سیاسی کردار ادا کریں اور پس منظر میں رہنا ترک کر کے میدان میں اُتریں، ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ نیب کے بلانے پر باپ اور بیٹے میں سے کوئی بھی پیش نہیں ہو گا اور وکلا جائیں گے، چنانچہ فاروق اے نائیک اور نیئر بخاری گئے اُن کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا اس کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اور بلاوا سیاسی انتقام ہے،اس پر نیب نے دونوں حضرات کے لئے سوال نامہ دے دیا کہ ان سے جواب لے کر جمع کرایا جائے،اس کے بعد ہی اندازہ ہو گا کہ اگلی صورت کیا ہو گی۔
پیپلزپارٹی کے حوالے سے بات کرنے سے قبل یہ پس منظر بیان کرنا ضروری تھا،کیونکہ ایک طرف منی لانڈرنگ کے ایک بڑے کیس میں جے آئی ٹی تحقیقات کر رہی ہے تو دوسرے بلاول بھٹو زرداری کا بھی نام شامل کیا گیا ہے کہ وہ بھی ڈائریکٹروں کی فہرست میں شامل ہیں،اب آصف علی زرداری اور شریف فیملی کا اس سلسلے میں احتساب شروع ہے اور دونوں ہی کے لئے یکساں مواقع پیدا کر کے تحقیقات کا دائرہ بڑھا کر تنگ کیا جا رہا ہے۔آصف علی زرداری مبینہ طور پر بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، خصوصی طور پر اومنی گروپ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق کا دائرہ دور تک بڑھایا گیا ہے، اس میں ان کے دوست مجید اینڈ کمپنی اور خود ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی شامل ہیں، دونوں بہن بھائی بنکنگ کورٹ سے ضمانت پر ہیں۔
یہ دسمبر کا مہینہ ہے۔اِسی ماہ کی27 تاریخ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر شہید کیا گیا، اس سے قبل جب وہ خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آئیں اور ان کا والہانہ استقبال کیا گیا تو جلوس پر خود کش حملے کئے گئے اور ان کے کارکنوں کو قبروں میں پہنچا دیا گیا۔ یہ الزام بھی ہے کہ بے نظیر بھٹو کو نشانہ بنانے کی سازش تھی، جو ان کی ذات کی حد تک کامیاب نہ ہو سکی،لیکن دوسرا حملہ جان لیوا ثابت ہوا تھا۔
بی بی کی شہادت کے بعد سندھ میں حالات خراب ہو گئے تھے، جلاؤ، گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا،پولیس کے ساتھ براہِ راست کارروائی ہوئی، سندھ والے بہت مشتعل تھے۔
ایسے میں آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے لگا کر اس گڑ بڑ کو سنبھالا تھا۔اب ان کا شکوہ ہے کہ کڑا وقت گذر گیا۔ پیپلزپارٹی وفاق کی علامت بن کر پھر اُبھری اور اس کا کلیم بھی داخل کیا گیا، حالات نارمل ہوئے تو عام انتخابات میں بھی حصہ لیا گیا اور پی پی کو اقتدار مل گیا۔ آصف علی زرداری صدرِ مملکت بنے،ان اسمبلیوں نے پانچ سال پورے کئے اور اگلے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ کو اقتدار ملا اس نے بھی پانچ سال پورے کر لئے، ہر دو میعاد یا مدت کے دوران خیریت گزری اور انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بخیرو خوبی انجام پا گیا۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی مدت پوری کی اور نئے انتخابات(2018 ء) کی بدولت عمران خان وزیراعظم بن گئے اور اقتدار بھی تحریک انصاف کو مل گیا۔
یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ آصف علی زرداری پیشیاں بھگت رہے اور ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے،اب تو بلاول اور بچیوں کا بھی ذکر ہے کہ تینوں متعلقہ کمپنی میں ڈائریکٹر تھے۔ جب آنچ یہاں تک پہنچی تو آصف علی زرداری نے یہ بڑا فیصلہ کیا۔ بلاول کو پردے کے پیچھے کر دیا گیا اور زرداری خود میدان میں آ گئے، تاہم ان کا سارا زور سندھ میں ہے۔
الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری اپنی جان بچانے کے لئے دباؤ کے حربے اختیار کر رہے ہیں،اس کی تردید کی جاتی ہے، لیکن سندھ کے عام جلسوں میںآصف علی زرداری، جس انداز سے پارٹی موقف بیان کرتے ہیں، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کارڈ کا عمل شروع ہے اور آصف علی زرداری عوام کی بھرپور حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یوں ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے،کیونکہ بات قومی سطح پر ہونا چاہئے، اسمبلیاں موجود ہیں،ایوان میں اس مسئلے پر بحث ہو جانا چاہئے، تاکہ باہر خلفشار ختم ہو، لوگ اِس وقت بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔آصف علی زرداری خود تو جیل جا سکتے ہیں،لیکن بلاول بھٹو کو ہر قیمت پر زد سے بچانا چاہتے ہیں۔ یہ کشمکش بھی سیاسی ہے اور سیاست زدہ ہی ر ہے گی اور یہ بہتر نہیں۔