سانحہ اے پی ایس لیکن میڈیا پر حملے کی خبر بریک ہونے سے چند لمحے قبل معروف صحافی کو ٹیلی فون کرکے طالبان کے نمائندے نے کیا کہا تھا؟ زخم ایک مرتبہ پھر تازہ ہوگئے

سانحہ اے پی ایس لیکن میڈیا پر حملے کی خبر بریک ہونے سے چند لمحے قبل معروف ...
سانحہ اے پی ایس لیکن میڈیا پر حملے کی خبر بریک ہونے سے چند لمحے قبل معروف صحافی کو ٹیلی فون کرکے طالبان کے نمائندے نے کیا کہا تھا؟ زخم ایک مرتبہ پھر تازہ ہوگئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پشاور (ویب ڈیسک) سانحہ اے پی ایس کو پانچ سال بیت گئے ہیں لیکن  میڈیا پر حملے کی خبر بریک ہونے سے چند لمحے قبل معروف صحافی کو ٹیلی فون کرکے طالبان کے نمائندے نے کیا کہا تھا؟ایک عرصے بعد سینئر صحافی نے خاموشی توڑ دی ۔

روزنامہ جنگ میں رفعت اللہ اورکزئی نے لکھا کہ ’’وہ ایک انتہائی بھیانک اور خوفناک دن تھا۔ اس روز جس بےدردی سے معصوم بچوں اور اساتذہ کو خون میں نہلایا گیا اس کی ہماری ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے طالبان حملے میں جس انتہا درجے کی بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا اس نے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بھی ہلا کر رکھ کر دیا تھا۔

میرے لئے وہ دن کئی حوالوں سے مشکلات اور دکھوں کا باعث بنا۔ میں شاید پاکستان کا واحد صحافی تھا جسے سب سے پہلے اس واقعے کا علم ہوا۔ یہ 16 دسمبر کی صبح تقریباً 9 بجے کا وقت تھا جب مجھے افغانستان کے نمبر سے ایک کال موصول ہوئی۔

ہمیں اکثر اوقات اس طرح کی کالیں موصول ہوتی تھیں۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کے کسی کمانڈر کی کال ہوگی۔ جب میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف خلیفہ عمر منصور بات کررہا تھا۔خلیفہ عمر منصور عرف ’نرے‘ (دبلے) تحریک طالبان پاکستان کے پشاور اور درہ آدم خیل گروپ کا امیر تھا۔ وہ آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے دونوں حملوں کے ماسٹر مائنڈ بتایا جاتا تھا۔

علیک سلیک کے بعد عمر منصور نے کہا کہ ان کے کچھ حملہ آور پشاور کے کسی اسکول میں داخل ہو گئے ہیں اور میں ان کی دوسرے کال کا انتظار کروں۔ میں نے فون بند کرتے ہی ریموٹ اٹھایا اور چینلز تبدیل کرنے لگا لیکن کسی ٹی وی چینل پر کوئی خبر نظر نہیں آئی، ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا رہا کہ ہو سکتا ہے اطلاع غلط ہو کیونکہ شدت پسند تنظیمیں کبھی کبھار جھوٹے دعوے بھی کرتی تھیں لیکن صحافی ہونے کے ناتے ٹی وی کے سامنے ضرور بیٹھا رہا اور چینلز مسلسل تبدیل کرتا رہا۔

میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن فون کال آنے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد مجھے اچانک ایک ٹی وی چینل پر ایک ٹِکر نظر آیا جس میں وارسک روڈ پر پولیس کے ساتھ کسی جھڑپ کی خبر تھی لیکن اس سے زیادہ اور معلومات نہیں تھیں۔

ابھی یہ خبر بریک ہورہی تھی کہ شدت پسند کمانڈر خلیفہ عمر منصور کی دوسری کال آئی اور اس کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ حملہ آرمی پبلک اسکول پر کیا گیا ہے۔ طالبان کمانڈر نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو خودکش حملہ آور کا موبائل نمبر بھی دے سکتا ہوں جو اس وقت آرمی پبلک اسکول میں موجود ہے یا آپ کا نمبر اُسے دے دوں گا، آپ کو کال کر کے اندر کی پوری صورتحال بتا دے گا۔میں نے اس پر کوئی بات ہی نہیں کی اور فون کاٹ دیا‘‘۔