جلسوں کا باپ
لاہور کا جلسہ ایک دن قبل ہی ناکام ہوگیا جب سوئے ہوئے شیخ رشید کو جگاتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی وزیر داخلہ کا منصب اس شرط پر تھمایا گیا کہ آپ کو داخلہ امور کے ساتھ ساتھ اطلاعات کے شعبے کو بھی سنبھالنا ہوگا سو شیخ رشید اس وقت وزیراعظم کے وزیر داخلہ ہیں تو وزیر اطلاعات شبلی فراز کے اوپر وزیر اطلاعات بھی ہیں جلسہ تو جلسے والی صبح کو ہی فلاپ ہوگیا تھا جب وزیراعظم نے دوبجے کے قریب اپنے دو عدد ٹائیگرز کو کھانا کھلاتے ہوے ٹوئٹر پر تصویر ڈالتے ہوئے خود کو پرسکون ظاہر کیا اور پھر جلسہ اس وقت مزید فلاپ ہوگیا جب درجن بھر ترجمان صبح آٹھ بجے سے جلسے کے فلاپ ہونے پر تبصرے داغتے رہے سو بعض چینلوں نے بھی ان ترجمانوں کا دل رکھنے کیلئے جلسے سے پہلے دن کے شاٹ دکھانے شروع کر دئیے مگر پرسکون وزیراعظم کو سکون اس وقت آیا جب جلسے کے دوسرے دن وزیراعلیٰ پنجاب بنفس نفیس خود وزیراعظم کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے ان کی خدمت میں پیش ہوکر انہیں بتاتے رہے کہ..
خان سیب حوصلہ رکھو اجے تاں لانگ مارچ وی اوننڑاں اے
یہ تو ہے حکومتی خوش فہمی اور پروپیگنڈہ مگر زمینی حقیقت کچھ اور ہے یہ جلسہ جلسوں کا باپ جلسہ تھا اس طرح کے ماحول میں مینار پاکستان کی تاریخ میں کوئی جلسہ نہیں ہوا مثال کے طور پر جلسے سے تین دن پہلے یہاں پانی چھوڑ دیا گیا یہ پانی ابھی پوری طرح خشک نہیں ہو پایا تھا کہ جلسے سے ایک دن قبل رات بھر ہونے والی بارش نے ایک بار پھر میدان کو پانی سے بھر دیا سو جلسے والے دن درختوں پھولوں اور گھاس اور زمین پر موجود نمی نے یہاں کے درجہ حرارت کو مری بنا دیا دسمبر کی سردی میں سردی سے کپکپاتی ہوئی مخلوق خدا صبح سے شام تک جلسہ گاہ میں موجود رہی اور جلسہ گاہ کے باہر تک ہزاروں لوگ موجود تھے۔
مریم نواز کی یہ بات درست ہے کہ ایک جلسہ گراونذ میں اور ایک جلسہ گراونڈ کے باہر ہو رہا تھا جسے بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے اپنے بلیٹن کا حصہ بنایا اور اسے ایک کامیاب جلسہ قرار دیا بعض لوگ جلسوں کی جب بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے بے نظیر بھٹو شہید کے جلسے کی بات کرتے ہیں جو واقعی ایک عظیم الشان استقبالیہ جلسہ تھا مگر اس جلسے کے پیچھے ایک پوری سیاسی جدوجہد شامل تھی۔
بے نظیر بھٹو شہید کی عدم موجودگی میں ایم آر ڈی کی تحریک پورے زوروشور سے چل رہی تھی جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایک ذہن بن چکا تھا اور پھر بے نظیر بھٹو شہید کے والد بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے عوامی سطح پر غم وغصہ موجود تھا اور ان سب کا فائدہ بے نظیر بھٹو شہید کے حصے میں آیا اور عوام نے قیادت کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا اور بے نظیر بھٹو نے بھی سوچ سمجھ کے لاہور میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا وہ جانتی تھیں لاہور نے اگر مجھے اہمیت دی تو پاکستان بھر میں مجھے اہمیت حاصل ہوجائے گی سو ان کا فیصلہ درست ثابت ہوا مگر اس وقت کے سیاسی حالات اور لاہور کی آبادی بہت کم تھی سو اس جلسے کو آج کے جلسوں کیلئے مثال نہیں بنایا جا سکتا آج لوگ گھروں میں بیٹھ کر بھی جلسوں کے حالات اور لیڈروں کے بیانات دیکھ اور سن سکتے ہیں مزید جس جلسے کی مثال دی جاتی ہے وہ عمران خان کا جلسہ تھا جو بڑا جلسہ تھا مگر جلسہ خالص سیاسی نظریاتی جلسہ نہیں تھا یہ ایک سیاسی ثقافتی جلسہ تھا جس میں عوام کے. منورنجن. کیلے بہت سے سامان موجود تھے ملک کے ہر دلعزیز گلوکار اپنے گیتوں کے ساتھ سٹیج پر موجود تھے ہلہ گلہ تھا جس میں ظاہر ہے عوام کی شرکت یقینی تھی مگر پی ڈی ایم کا جلسہ ایک سنجیدہ جلسہ تھا جس میں ملک کو ایک نئے بیانیہ کے ساتھ متعارف کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے
پی ڈی ایم کی قیادت انتہائی سنجیدہ سوالات عوام کے سامنے رکھ رہی ہے وہ ملک کے داخلی اور خارجی حالات کا نقشہ پیش کر رہی اور پہلی بار اس نکتے پر جم کے کھڑی ہے کہ اس ملک میں سول بالادستی کو تسلیم کیا جائے بصورت دیگر ملک آگے سفر نہیں کرسکتا اور ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر کمزور سے کمزور ہوتے جائیں گے اب ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو کے دوران عوام بھنگڑے تھوڑی ڈالتے ہیں اس طرح کی گفتگو سنتے ہوئے عوام کے اندر سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس جلسے میں شرکاء کے درمیان گہری سنجیدگی نظر آئی لوگوں نے اپنے اپنے لیڈروں کی بات کو غور سے سنا اور ہاتھ اٹھا کے عہد کیا کہ وہ سول بالادستی کے لئے قیادت کے ساتھ ہیں اور ملک میں ووٹ کو عزت دلانے کیلئے پرعزم ہیں اب اگر جلسے کا حاصل نکالا جائے تو اس جلسے کے ذریعے عوامی سطح پر ایک گہری سوچ کے ساتھ تحریک کا حصہ بننے کیلئے ہاں کی صورت میں سامنے آیا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لاہور کا جلسہ جلسوں کا باپ جلسہ تھا۔