پاک فوج نے مشرقی پاکستان کا بھرپور دفاع کیا
قلم کاروان کے زیر اہتمام14 دسمبر کو منعقدہ سیمینار میں عبدالحنان نے کہاکہ ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑے بھارتی فضائیہ کے انیس طیارے تباہ کیے۔دشمن نے ہماری جرئیت کی تعریف کی اور بھارتی فوج ایک انچ بھی نہ چھین سکی۔ چٹاگانگ کے محاذ پر صرف 29 پاکستانی فوجیوں نے بھارتی کمپنی کاصفایاکیا۔ بریگیڈکو شکست دی اور ایک ڈویژن فوج کورکنے پرمجبورکردیا لیکن نہ معلوم کس نے اور کہاں اور کب ہتھیارڈالنے کافیصلہ کیا۔جس طرح اتاترک نے بیت المقدس جیسی مقدس عبادت گاہ پلیٹ میں رکھ کر یہودیوں کو پیش کی اسی طرح مشرقی پاکستان بھی ہندؤں کوپیش کردیا گیا۔ وطن عزیزکے خالق نظریے سے بغاوت کی سزاملی اورملک دولخت ہوگیا۔
”سقوط ڈھاکہ اورپاکستان کے موجودہ حالات“کے عنوان سے کامران علی نے اپنے مقالے میں اس دردناک سانحے کی مختصرکہانی آشوب بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی بنگالیوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا انجام بھی بہت بھیانک ہوا۔ مگر یہ طبقہ آج بھی اسی طرح اقتدارپرمسلط ہے۔ اگر سانحات سے سبق حاصل نہ کیاجائے توان کی دہرائی میں دیرنہیں لگتی۔
بھارت پہلے مشرقی پاکستان میں ہونیو الی گڑبڑ کی تاک میں تھا اسی لئے اس نے بہت پہلے مکتی باہنی کو منظم کرنا شروع کردیا تھا۔مجیب الرحمان بھی ان کے ہاتھوں کی کٹ پتلی تھا جس کی بدولت اس نے مشرقی پاکستان میں قومیت کے بیج بوئے جو اب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکے تھے۔ اس سیاسی ناکامی پربنگالیوں پر قومیت کے جذبات مزید حاوی ہوگئے جو بعد ازاں پر تشدد شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ جس کا فائدہ بھارت نے خوب اٹھایا اور اس نے اپنے فوجیوں کو مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان بھیج کر وہاں مسلح کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔
غیر بنگالی خاص طور پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افرادمکتی باہنی کے غیض و غضب کا نشانہ تھے۔ اس صورتحال کو قابو کرنے کے لئے پاک فوج کے جو دستے ڈھاکہ میں تعینات تھے ان کی تعداد اس وسیع بغاوت اور خانہ جنگی کو قابو کرنے کے لئے ناکافی تھی۔بہرحال مغربی پاکستان سے بیس ہزار فوجی دس روز کے بعد مشرقی پاکستان پہنچے۔ مغربی پاکستان سے مزید کمک ملنے کے بعد جنرل اے کے نیازی نے اسے حکومت کی رٹ کو بحال کرنے کے علاوہ سرحدوں پر بھی منظم کیا۔ اس طرح جو دستے بکھرے ہوئے تھے، نئے دستوں کی آمد سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور ان کے درمیان رابطہ کاری کا نظام بھی بہتر ہوا۔ یہ مرحلہ گو کہ انتہائی مشکل تھا مگر جنرل نیازی نے اسے بخوبی انجام تک پہنچایا۔ اس طرح اپریل 1971ء تک صورتحال پر قابو پایا جا چکا تھا۔
بھارت کے قوم پرست رہنمانیتاجی بوس کی بھتیجی اور نامورمصنفہ سرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں 1971میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق مزیدانکشاف کیاہے کہ پاکستانی فوج نے اپریل،مئی تک واضح طورپرمشرقی پاکستان کاکنٹرول واپس حاصل کرتے ہوئے معاملے کے سیاسی حل کاموقع پیداکردیاتھا مگرپاکستانی حکمران اورسیاستدان وقت اورموقع کافائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے میں سیاسی وسفارتی ناکامی کی ذمے دارفوج نہیں۔مشرقی پاکستان میں مشکلات کے باوجودبلندحوصلے اورجوانمردی سے لڑنے والے فوجیوں کوعزت دینے کی بجائے ان کی تذلیل کرناناقابل فہم ہے۔
سرمیلا بوس کی یہ کتاب ان تمام باتوں کی تردید کرتی ہے جو اب تک 1971 کی جنگ کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ ان کے مطابق نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ کہ تشدد صرف پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا۔وہ پاکستانی فوج پر الزامات کی صفائی تو پیش نہیں کرتیں لیکن یہ اصرار ضرور کرتی ہے کہ پاکستانی فوج پر نسل کشی، جنسی زیادتیوں اور تشدد کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ قطعاً درست نہیں۔ پاکستانی فوج میں خصوصاً جو بلوچ تھے ان کا سلوک بنگالیوں سے اچھا تھا۔ اس زمانے میں ’بلوچ‘ یا ’بلوچی‘ بنگالیوں کے لیے ایک ایسی اصطلاح بن گئی تھی جس کے معنی تھے ’اچھا یا تحفظ دینے والا فوجی‘۔
ڈھاکہ میں 14 اور 15 دسمبر کو آزادی کی حامی بنگالی دانشوروں کو ان کے گھروں سے اغوا کیے جانے اور بعد میں قتل کیے جانے میں بھی پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں نہ صرف پاکستانی فوجی افسروں کے تردیدی بیانات بلکہ مارے جانے والے دانشوروں کے خاندانوں کے وہ بیانات بھی پیش کیے گئے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو گھروں سے لے جانے والے وہ مسلح سویلین تھے جو فوج کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ ’البدر‘ کا نام لیتے ہیں۔ جو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نوجوانون رضاکاروں کی تنظیم تھی اور بنگالیوں پر ہی مشتمل تھی۔اسی طرح وہ 26-25 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹل پر پاکستانی فوجی حملے کی خبر اڑی لیکن درست ثابت نہ ہوئی۔یکم اپریل کو جیسور میں پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل کی عالمی ذرائع ابلاغ سے بھی سامنے آئی لیکن حقیقت یہ تھی کہ جیسور میں آزادی کے حامی بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا۔
بہرطور، مشرقی پاکستان 1971 میں ایک ایسا میدان جنگ تھا جس میں کئی متشدد فریق ایک ساتھ سرگرمِ عمل تھے، ان میں شدت پسند باغی بھی تھے، تشدد پر آمادہ ہجوم بھی۔ ایسی شہری دہشت گردی بھی جاری تھی جو ہندستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔
سرمیلا بوس سقوط ڈھاکہ میں پاک فوج کی مظلومی و بے کسی اورحقائق چھپانے اور بھارتی اور مغربی کے پاک فوج پر الزامات و پروپیگنڈے کو جھٹلانے کیلئے میدان میں آئیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاک فوج کو بدنام کرنے کیلئے بھارت اور مغربی دنیا نے کیا کیا طریقہ استعمال کیا کہ خودکٹر بھارتی ہندو دانشور بھی پاک فوج پر الزامات کی دھول دھونے پر مجبور ہوگئے۔