سڑکیں یا قتل گاہیں؟
2021ء ختم ہونے میں ابھی چند دن باقی ہیں پنجاب ریسکیو اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2021ء سے 30 نومبر 2021ء تک 24587 حادثات ہو چکے ہیں جن میں 5280 افراد جاں بحق ہوئے اور کل زخمیوں کی تعداد 26578 ہے جنوبی پنجاب میں اس دوران 1234 ہلاکتیں ہوئیں، سب سے زیادہ ہلاکتیں لاہور اور فیصل آباد میں ہوئیں 90 فیصد حادثات موٹر سائیکلوں کے ہیں، دوسرے نمبر پر رکشہ اور لوڈر رکشہ کے حادثات آتے ہیں، ہائی وے اور موٹر وے پر بھی حادثات تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ ٹریفک کے مسائل اور حادثات پر نظر رکھنے والے ملتان کے صحافی ناصر محمود شیخ نے جب مجھے یہ اعداد و شمار فراہم کئے تو میں ششدر رہ گیا۔ صرف پنجاب میں حادثات اتنی بڑی تعداد میں ہوئے ہیں تو پورے ملک کا کیا حال ہوگا۔ گویا ہر سال غیر طبعی موت مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد حادثات کا شکار ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ سب سے زیادہ اہم قرار پانا چاہئے مگر حکومتوں کی ترجیحات میں یہ آخری نمبر پر کھڑا ہے، اسے ایک معمول سمجھ لیا گیا ہے سڑکوں پر اس ”قتلِ عام“ کو روکنے کے لئے ایک گرینڈ آپریشن ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کے کتنے فیصد افراد گاجر مولی کی طرح حادثات میں کٹتے، بریدہ ہوتے دیکھ رہے ہیں مگر کوئی انہیں روکنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرنے کو تیار نہیں، شہروں کے اندر، ہائی وے اور موٹر وے پر حادثات کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ میں نے تو کبھی نہیں سنا کہ پارلیمینٹ میں کبھی اس معاملے پر بھی سوال و جواب کا سیشن ہوا ہو یا کسی نے اس پر سوچ بچار کرنے کی قرارداد پیش کی ہو وہی پرانے ٹریفک قوانین، وہی حادثات پر معمولی سزائیں، ٹریفک پولیس کا ڈھیلا ڈھالا اور کرپٹ نظام، جو ٹرانسپورٹروں اور ان کے ڈرائیوروں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ یوں اس خونی کھیل کو معمول سمجھ لیا گیا ہے۔ اخبارات اور میڈیا والے بھی ایک دو افراد کے مرنے کو خبر نہیں سمجھتے، مختلف حادثات میں ہونے والوں کا مشترکہ ذکر کرتے ہیں تاکہ بتا سکیں بارہ یا پندرہ افراد حادثات کی نذر ہو گئے ہیں۔
جس صوبے میں ٹریفک پولیس کو آمدنی بڑھانے پر لگا دیا گیا ہو وہاں ٹریفک کا نظام کیسے بہتر ہو سکتا ہے پنجاب کے بجٹ میں 3 ارب نوے کروڑ روپے ٹریفک جرمانوں کی مد میں اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی روزانہ کروڑوں روپے کے چالان کرنے کی ذمہ داری تو سونپ دی گئی ہے، ٹریفک کو کیسے چلانا ہے منظم کرنا ہے اس بارے میں کوئی گرفت نہیں۔ یہ اربوں روپے ٹریفک نظام کی بہتری پر لگائے جانا چاہئیں مگر یہ دیگر مدات میں صرف کر دیئے جاتے ہیں۔ جب ایک فلاحی محکمے کو آپ پیسہ بنانے پر لگا دیں گے تو وہ کیسے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے ایک مشہور کمپنی کی بس میں ملتان سے لاہور تک کا سفر کیا، ڈرائیور نے ملتان کی حدود سے نکلتے ہی موبائل فون کان سے لگایا اور پھر وہ موٹر وے پر ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتا رہا۔ میں نے ایک آرام و طعام کے مقام پر اسے کہا دوران ڈرائیونگ فون سننا قانوناً جرم ہے، اسے جھوٹ بولتے ہوئے کہا میں ملتان میں ٹرمینل مینجر سے گفتگو کر رہا تھا حالانکہ اس کی طویل کال سے صاف لگ رہا تھا وہ کسی نجی کال میں مصروف ہے۔ میرے ٹوکنے پر البتہ اتنا اثر ضرور ہوا کہ اس نے باقی راستے میں فون نہیں کیا۔ اکثر حادثات اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ ڈرائیور کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے اور وہ مشینی انداز سے ڈرائیونگ کر رہا ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سنگین حادثات کے مرتکب ڈرائیوروں کا لائسنس ہمیشہ کے لئے ضبط کر لیا جاتا ہے اور وہ عمر بھر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلا سکتے۔ ہمارے ہاں آج ایک ڈرائیور اپنی غفلت سے درجنوں جانیں لینے کا مرتکب ٹھہرتا ہے لیکن چند ہی دنوں میں ضمانت کراکے پھر موت بانٹنے والی ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھتا ہے۔ یہ لائسنس ٹو کل دینے کی روایت کب ختم ہو گی اور کب صریحاً اور عادتاً غلط ڈرائیونگ کرنے والوں کو بھی قاتل سمجھا جائے گا۔
پنجاب میں اس وقت تین قسم کی ٹریفک پولیس کام کر رہی ہے شہروں میں ٹریفک وارڈن سسٹم رائج ہے، ہائی وے پر پرونشل ہائی وے پولیس کی ڈیوٹی ہے اور موٹر وے پر موٹر وے پولیس کا راج ہے۔ تین قسم کی پولیس کے باوجود حادثات ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ آج کل موٹر وے پر بھی حادثات بڑھتے جا رہے ہیں حالانکہ اسے محفوظ سفر سمجھا جاتا تھا۔ حادثہ کبھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے بغیر نہیں ہوتا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے زیادہ تر حادثات پبلک یا کمرشل ٹرانسپورٹ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی بس بے قابو ہو کر دریا میں گھر جاتی ہے، کبھی کوئی ڈمپر یا ٹرالہ موٹر سائیکل رکشہ یا موٹر سائیکل سواروں کو کچل دیتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بڑھنے کی وجہ سے اچھے ڈرائیوروں کا بھی کال پڑ گیا ہے۔ جو ٹرک ڈرائیور تھے وہ بسوں کے ڈرائیور بن گئے ہیں حتی کہ ٹریکٹر چلانے والے بھی بس ڈرائیور کی سیٹ سنبھال چکے ہیں جس کی وجہ سے شاہراہوں پر حادثات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ٹریفک کے ایشو کو قومی ایجنڈے میں شامل کیا جائے اسے صرف ٹریفک پولیس پر نہ چھوڑا جائے بلکہ وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ سڑکوں کی انجینئرنگ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ سڑکوں کی انجینئرنگ میں جو خرابیاں ہیں ان کا عالمی اداروں سے فرانزک آڈٹ کرا کے اصلاح کی جائے۔
ٹریفک ایجوکیشن وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے علیحدہ محکمہ قائم کر کے اس کے توسط سے ہر طبقے میں ٹریفک کا شعور اجاگر کیا جائے ہائی وے اور موٹر وے پر ابتدائی طبی امداد کے مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ حادثات کی صورت میں فوری طبی امداد دے کر جانیں بچائی جا سکیں۔ لاہور میں ہائیکورٹ کے حکم سے ون وے توڑنے اور بغیر لائنس گاڑی چلانے والوں پر 2 ہزار روپے جرمانہ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا جائے۔ حادثات میں سنگین غفلت سامنے آنے پر سزاؤں میں اضافہ کیا جائے اور ایسے ڈرائیور کا لائنس ضبط کر کے اسے ڈرائیونگ کے لئے ان فٹ قرار دیا جائے۔ بہت عرصے سے ایک تجویز چل رہی ہے کہ میٹرک سے ایم اے تک کے نصاب میں ٹریفک قوانین اور ان کے شعور کی مناسبت سے ایک مضمون شامل کیا جائے تاکہ تعلیمی اداروں میں صرف ٹریفک پولیس والے ہی جا کر آگاہی نہ دیں بلکہ اساتذہ بھی طلبہ و طالبات کی رہنمائی کر سکیں مجھے وہ شخص رہ رہ کر یاد آ رہا ہے جس کا جواں سال اکلوتا بیٹا ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔ وہ اس کی لاش پر کھڑا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا خدا کے لئے اس قتل عام کو روکو، اسے حادثہ نہ کہو یہ قتل ہے۔ ایسے واقعات کو ہم اللہ کی مرضی سمجھ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں، وہ شخص ٹھیک کہہ رہا تھا۔ یہ بھی قتلِ انسانی کی ایک قسم ہے۔ اس سال جو 5280 افراد صرف پنجاب میں حادثات کی نذر ہوئے ہیں، کوئی ان کے لواحقین سے پوچھے ان پر کیا بیت رہی ہے۔ جو زخمی ہو کر عمر بھر کے لئے اپاہج ہو چکے ہیں کوئی ان کا درد سمجھے۔ کیا ہم سب اس لئے اطمینان سے بیٹھ سکتے ہیں کہ ہمارے یا ہمارے کسی عزیز کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کیا ہم 2022ء میں بھی اسی طرح سڑکوں پر قتل عام ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ تاوقتکہ ہم خو کسی حادثے کی نذر نہ ہو جائیں آؤ سوچیں، آؤ اس قتل عام کے آگے بند باندھیں۔