چودھری محمد اختر ، کورٹ اور دکھی انسانیت
تحریر: سعدیہ مغل
انسانیت کے علمبردار ، دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ، موجودہ وقت کا جونیر عبدالستار ایدھی جنکا اصل نام چودھری محمد اختر ہے، کی پیدائش انگلینڈ میں ہوئی۔ چوہدری محمد اختر نے ابتدائی تعلیم انگلینڈ سے حاصل کی۔چوہدری محمد اختر کے والدین کا تعلق میرپور آزادکشمیر سے تھا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد چوہدری محمد اختر نے اپنے کاروبار کا آغاز انگلینڈ میں کیا۔
چوہدری محمد اختر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کبھی سالوں میں پاکستان کا وزٹ کرتے تھے ، وقت گزرتا گیا اور ایک دن ایسا آیا جب خدا نے غریبوں کی تقدیر کو بدلنا تھا ۔ اللہ کی قدرت 2005 میں پاکستان اور آزاد کشمیر میں ایک ہولناک زلزلہ ہو گیا جس نے لوگوں کی زندگیوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ یہ منظر دیکھ کر چودھری محمد اختر اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ریلیف کا سامان لے کر کچھ دنوں کے لیے پاکستان روانہ ہوئے ، لوگوں کے حالات اور ہونے والی تباہ کاری دیکھ کر چوہدری محمد اختر نے دل میں فیصلہ کرنا شروع کیا کہ مجھے کچھ کرنا چاہیے جو غریبوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے لئے ہو ۔8 اکتوبر 2005 کو زلزلے کی شکل میں آنے والے قدرتی آفت جس نے جہاں سینکڑوں مکانوں کو نصب و نابود خود کر کے رکھ دیا سب کچھ تباہ کردیا وھاں مختلف بچے یتیم ہوگے ۔
پاکستان پہنچ کر چوہدری محمد اختر کے دل کی دنیا بدل گئی ۔ انکو یہ نہیں پتا تھا کہ میں اپنے آپ کو کس مشکل میں ڈال رہا ہوں جہاں پر ایک طرف انکے خونی رشتے اپنی زوجہ اور بیٹی کی صورت میں تھے اور دوسری طرف یہ بچے جو اس وقت بے یارومددگار ٹھوکریں کھا رہے تھے۔جن سے ان کے اپنے رشتے داروں نے آنکھیں پھیر لیں اور وہ بچے اس وقت کسی مسیحا کی تلاش میں تھے تھے یہ آسان نہیں لیکن بہت مشکل فیصلہ تھا اور بلا آخر چودھری محمد اختر نے اس رشتے کو اپنایا کیا ۔ چوہدری محمد اختر نے چند یتیم بچوں پر پر مشتمل ایک قافلہ اپنے ساتھ لیا اور میر پور میں ایک کرائے کی عمارت میں ان کو سائبان دیا۔ کرائے کی اس عمارت میں بچوں کے لئے ان تمام سہولیات کا بندوبست کیا جن کی ان کو اشد ضرورت تھی ان کے لیے رہنے سے کھانے پینے اور تعلیم و تربیت کا انتظام کیا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ان بے سہارا بچوں کے لئے ایک ایسا گھر بنایا جائے جس میں زندگی کی تمام تر سہولیات موجود ہو ہوتی ہیں۔ اس سوچ کو لئے میں اس وقت کے موجودہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم سردار محمد علی خان کے پاس حاضر ہوا اور یہ تمام بچوں کے لئے گھر بنانے کے لیے جگہ کی درخواست کی جائے وزیراعظم نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے 100 سے زائد کنال پر مشتمل ہے اراضی دی۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے ہم نے ویران اور جھاڑیوں والی جگہ پر کوٹ کی تعمیر شروع کی بہت سے لوگ دیکھنے کے لیے کہتے تھے کہ یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے لیکن کہتے ہیں کہ اللہ اگر کسی سے کام کروانا چاہتا ہے تو وہ مدد بھی کرتا ہے اور اس کے کرم سے آج کورٹ کی اندر مختلف عظیم الشان بلاکس جن میں ایڈمن بلاک فاطمہ ہاؤس جناح ہاؤس اور میسج بلاک ایک عظیم شاہکار ہیں ہیں 2005 کے زلزلے کے بعد لگایا جانے والا یہ ننھا پودا آج ایک شاداب درخت بن چکا ہے اور آج سالہا سال بعد اس درخت کے سائے میں نہ صرف یہ بے وفا ہے زمانے کے ٹھکرائے ہوئے بچے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔
یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کی وجہ سے چودھری محمد اختر نے طویل مدتی طویل المیعاد سہارے کے لئے کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اور کام شروع ھوگیا ۔ کورٹ کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر ہے۔ آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں جہاں بھی لوگوں کو مشکلات درپیش ہوں ۔
کورٹ وہاں پہنچ کر لوگوں کی ہر ممکن مدد کرتا ہے حالیہ دنوں میں پاکستان میں سرحد بندی کی وجہ سے وہاں شدید بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے شدید بحران سے متاثر لوگوں کیلئے کوٹ نے 23 ٹرک انسانی ہمدردی کی کی مد میں خوراک ادویات اور جو شدید ضرورت مند لوگوں کے لئے بھیجئے دوسرے فیس میں پ1500 سے زائد متاثرہ خاندانوں کے لیے سردیوں کے کپڑے وغیرہ بھیجے بلوچستان میں 2000 سے زائد خاندانوں میں کمبل تقسیم کئے گئے۔
کورٹ نہ صرف یتیم بچوں کا ایک ادارہ ہے بلکہ کورٹ بہت سے صفائی کا کام سرانجام دے رہا ہے کورٹ جہاں یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور آزاد کشمیر بھر میں مختلف پروجیکٹس چلا رہا ہے جن میں سپیشل لوگوں کے لیے وہیل چیئر غریبوں دانا دار لوگوں کے لیے فوڈڈراییو ایل او سی پر متاثر افراد کی امداد 2019 میں آنے والے ہولناک زلزلے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے 150 سے زیادہ گھر بنا کر دیئے اور ایسے لوگ جن کے پاس اپنی زمین تک نہ تھی ان لوگوں کے لئے کوٹ ولیج میں مکانات تعمیر کرکے ان کے حوالے کئے اس کے علاوہ رمضان فوڈپیکج اور قربانی پروجیکشن مل ہی کوٹ اب تک کی ایسی جگہوں پر سکول کی عمارتیں تعمیر کروا رہا ہے جہاں بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے اور اب بھی کشادہ عمارتوں نے بچے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہیں ہیں۔کوٹ کے تعاون سے پاکستان کے شہر اسلام آباد میں بھی تمام پبلک پلیس پرسپشن لوگوں کے لیے واش روم بنائے گئے جو کہ ایک منفرد اور نمایاں کام ہے جبکہ عالم آبادی صوابی خیبر پختونخوا میں کوٹ ہوم2 تکمیلی مراحل میں ہے۔
کورٹ کے اندر یتیم اور بے سہارا بچوں کے لئے انٹرنیشنل لیول کے انتظامات موجود ہیں۔ صفائی ستھرائی کے انتظامات ، میعاری اور لذیذ کھانے ، پڑھا لکھا اور تربیت یافتہ سٹاف کورٹ میں آنے والے مہمانوں کو حیران کر دیتا ہے ، لوگوں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا یہ ادارہ میرپور آزاد کشمیر میں ہے یا پیرس یا لنڈن میں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تمام یتیم بچوں کی ولدیت کے ساتھ چودھری محمد اختر کا نام آتا ہے ۔
چوہدری محمد اختر ہر بچے کو اپنے حقیقی بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں ، ہر بچہ اور بچی انکو کو اپنا حقیقی والد سمجھ کر انکے ساتھ لپٹ جاتا ہے ، چوہدری محمد اختر کو ادارے میں رہنے والے ہر بچے ، بچے کا نام پتہ ہے ،
اس وقت کورٹ ایسا ادارہ ہے جو سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ، وزیراعظم پاکستان سے لے کے، آرمی، انتظامیہ اور پولیس کے سینیر آفیسران کے علاوہ انٹرنیشنل لیول کے ایمبیسٹرز کورٹ کا ویزٹ کر چکے ہیں جنہوں نے کورٹ کے کام کو سراہا اور چوہدری محمد اختر کی ہمت کو داد دی۔
اس وقت کورٹ ایک بہت بڑا ہسپتال بنانے جا رہا ہے جہاں پر غریبوں کا فری علاج کیا جائے گا اور اس میں سہولیات بھی انٹرنیشنل لیول کی دی جائیں گی، کورٹ بہت جلد ایک بہت بڑی یونیورسٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں پر غریب ، محکوم اور پسے ہوے گھرانوں کے بچے اعلی تعلیم حاصل کریں گے
انسانیت کی خدمت ایک عبادت ہے ، ہم سب کو کورٹ جیسے ادارے کو مضبوط کرنا چاہیے ، یہ چوہدری محمد اختر کا اکیلا کام نہیں بلکہ ہم سب کی اجتماعی زمہ داری ہے ،
اللہ ہم سب کو اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔