نازی جرمنی کے حراستی کیمپوں میں لوگوں پر کیسے مظالم ہوتے تھے؟ 93 سالہ خاتون نے دل دہلا دینے والی داستان سنادی
برلن(مانیٹرنگ ڈیسک) نازی جرمنی میں حراستی مراکز میں قیدیوں کو کس طرح کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح انہیں اذیت ناک طریقوں سے موت دی جاتی تھی، ایک نازی کیمپ میں قید رہنے والی عمر رسیدہ خاتون نے اس حوالے سے ہولناک انکشاف کر دیا ہے۔
میل آن لائن کے مطابق آسیہ شندلمین نامی یہ 93سالہ خاتون اب امریکہ میں رہتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب پولینڈ پر جرمنی نے قبضہ کیا اور ہولوکاسٹ شروع ہوئی تو آسیہ اس کے چند عینی شاہدین میں سے ایک ہے جو اب تک زندہ ہیں۔
آسیہ نے بتایا ہے کہ اسے بھی گرفتار کرکے ڈینزیگ میں واقع ایک نازی حراستی کیمپ میں قید کیا گیا تھا۔ یہ شہر اب پولینڈ میں شامل ہے۔ اس کیمپ میں گارڈز قیدیوں کو اٹھا کر آہنی جنگلوں کے ساتھ مارتے تھے، جن میں ہائی وولٹیج کرنٹ ہوتا تھا، یا پھر قیدیوں پر بھوکے کتے چھوڑ دیئے جاتے تھے، جو انہیں چیر پھاڑ کر موت کے گھاٹ اتار ڈالتے تھے، یا پھر قیدیوں کو گولیاں مار کر قتل کیا جاتا تھا۔
آسیہ نے بتایا کہ ”25جولائی 1944ءکو مجھے میری فیملی کے ساتھ گرفتار کرکے ڈینزیگ کے حراستی کیمپ میں لیجایا گیا۔ میرے ساتھ میرے ماں باپ، دو بھائی، انکل اور دادی بھی تھے۔ ہمیں جانوروں والی گاڑی میں بند کرکے ڈینزیگ لیجایا گیا۔ جرمنی سے وہاں پہنچنے میں ہمیں چار دن لگے اور اس دوران ہمیں کھانے پینے کو کچھ بھی نہ دیا گیا تھا۔ میری دادی کو انہوں نے جاتے ہی گولی مار کر قتل کر دیا اور مجھے اور میری ماں کو فیملی کے مردوں سے الگ سیل میں قید کر دیا۔ یہاں لائے جانے پر ہمیں ایک ایک نمبر الاٹ کیا گیا تھا اور مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرا نمبر 54138تھا۔ یہاں گارڈز کو کھلی اجازت تھی کہ وہ قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں کریں۔ تمام قیدیوں کو روزانہ گھنٹوں تک قطاروں میں کھڑا رکھا جاتا اور جو تھک کر گرتا اسے قتل کر دیا جاتا تھا۔
اس کیمپ میں 11ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا اور ان دنوں اس کیمپ کے ایس ایس کمانڈر کی سیکرٹری کی ڈیوٹی سرانجام دینے والی ایک خاتون کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے، جس کے خلاف عدالت میں بیان دیتے ہوئے آسیہ نے اپنی بپتا سنائی ہے۔ اس ارمگیرڈ فرشنر نامی خاتون کی عمر اب 96سال ہے۔ وہ اس نازی حراستی کیمپ میں 1943ءسے 1945ءکے درمیان بطور سیکرٹری تعینات رہی۔اس پر ان 11ہزار لوگوں کے بہیمانہ قتل میں معاونت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ارمگیرڈ کی طرف سے اس الزام کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ کیمپ میں ملازمت کرتی رہی تاہم اس کا لوگوں کے قتل عام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔