سقوط کے گھاؤ
سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے یادیں دلخراش ہیں۔یہ سانحہ کس وجہ سے پیش آیا، اِس پر بدستور گرد پڑی ہوئی ہے۔ حمود الرحمن کمیشن بنا، اِس کی رپورٹ سرکاری طور پر کبھی سامنے نہیں آئی۔ اگر آئی بھی تو بھارت میں لیک ہو کر ”امپورٹ“ ہوئی۔ سقوط کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے کمیشن کو مینڈیٹ ہی نہیں دیا گیا تھا، اُس کو یہ فرائض سونپے گئے تھے۔”وہ اُن حالات کی تحقیقات کرے جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور اُن کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے۔بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں و کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا“۔باقی سب اپنی جگہ لیکن وجوہات کا تعین ضروری تھا اور بدستور ہے۔
ہر سال آج تک16دسمبرسے قبل 1971ء میں لگنے والے گھاؤ پھر سے ہرے ہونے لگتے ہیں، ٹیسیں اٹھتی ہیں اور مظلوموں کی سسکیاں اور سسکاریاں چیخیں بن کر جگر چھلنی کر دیتی ہیں۔1970ء کے انتخابات کے نتائج کو ہمارے ملک کی ”ٹو اِن ون“ فوجی و سیاسی قیادت تسلیم کر کے اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو حق حکومت دے دیتی تو شاید ہم اس انسانی المیے سے بچ جاتے جو بدستور جاری ہے۔یحییٰ خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور طاقتور صدرِ پاکستان تھے۔ان کی غلط پالیسیاں، کچھ اُن کی اور کچھ سیاست دانوں کی حوسِ اقتدار بھی بنگالیوں کے اشتعال کا سبب بنی۔
مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ یقینا انسانیت سوز ہے مگر ”گوئبِلائزیشن“نے بہت سے حقائق پر جھوٹ کی گرد ڈال دی۔ شیخ مجیب سمیت کئی باغی بنگالی سیاست دان لاکھوں بنگالیوں کے قتل اور خواتین کی عزتوں کی پامالی کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں جبکہ ان لاتعداد انسانوں کے قتل کو بھول جاتے ہیں جن کو مکتی باہنی نے باغیوں کے ساتھ مل کر تہہ تیغ کیا۔الطاف حسن قریشی صاحب سے کل ملاقات ہوئی،ہیومینٹی انٹرنیشنل کے چیئرمین احتشام ارشد نظامی صاحب کی خواہش پر16دسمبر کے حوالے سے الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، ارشاد احمد عارف، کرنل زیڈ آئی فرخ اور عبدالرؤف (50منٹ پروگرام والے) کے انٹرویوز کئے جو آج16 دسمبر کو نظامی صاحب اپنے چینل پر چلا رہے ہیں۔ الطاف حسن قریشی سقوط کے کچھ عرصہ بعد ڈھاکہ گئے، اُن کو وہ عقوبت خانہ دکھایا گیا جہاں پاکستانیوں کو ذبح کیا جاتا رہا تھا۔ اِس عقوبت خانے کو کئی بار دھویا گیا اُس کے باوجود خون کی تین چار انچ تہہ جمی ہوئی تھی۔یہ قتل عام باقاعدہ پلاننگ کے تحت کیا گیا۔ آمادہئ بغاوت بنگالیوں کے خلاف بھی کارروائیاں ہوئیں جو بغاوت فروکرنے اور سیلف ڈیفنس میں کی گئیں۔ اِن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں میں تو ہو سکتی ہے۔اُن کو لاکھوں بتانا گوئبِلائزیشن، جھوٹ اور بہتان ہے۔ اموات جس طرف سے بھی ہوئیں یہ ایک المیہ ہے۔ کاش یہ المیہ نہ ہوتا، اگر ہوا بھی تو اُسی دورتک محدود رہتا مگر وہ بدستور اِس صورت میں جاری ہے کہ اب بھی وہاں تین لاکھ بقیہ پاکستانی انسانی حقوق سے یکسر محروم بے بسی کی تصویر بنے اپنے وطن آنے کی راہیں دیکھ رہے ہیں۔
وہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے؟ کیوں آئے؟ کب آئے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے ایک ایسے شخص سے گفتگو کی جس کا اپنا خاندان ایسے ہی لوگوں میں شامل تھا۔یہ احتشام ارشد نظامی ہیں۔ آج کل وہ امریکہ میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں اُن کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ حالیہ دِنوں میں آئے تو اُن سے ملاقاتیں ہوئیں اس دوران اُنہوں نے کچھ اپنے بارے میں بتایا،کچھ باتیں دہرائیں اور کچھ انکشافات کئے۔احتشام نظامی کہتے ہیں ”میرا بچپن مشرقی پاکستان میں گزرا۔ میں نے ڈھاکہ سے سکول کی تعلیم حاصل کی۔ ہائی سکول کے بعد انٹرمیڈیٹ بھی وہاں سے ہی کیا۔ مزید تعلیم کے لیے والدین نے مغربی پاکستان بھیج دیا۔اُس کے بعد مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانا تھا لیکن میرے مغربی پاکستان آنے کے ایک سال بعد ہی سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ وہاں میرے والدین پھنس گئے۔ بے شمار وہ لوگ جو بھارت کے اقلیتی صوبوں سے1947ء میں نقل مکانی کر کے مشرقی پاکستان گئے تھے۔ زیادہ تر لوگ ریلوے اور ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ کا نظام چلاتے تھے۔وہ ہنر مند تھے اِس لیے قائداعظمؒ نے اُنہیں کہا تھا کہ وہ پاکستان آ کر اِس کے لیے کچھ کریں، لہٰذا وہ لوگ یہاں آ گئے۔ کچھ لوگ مغربی پاکستان آئے تو کچھ لوگ مشرقی پاکستان گئے۔جو لوگ مشرقی پاکستان گئے وہ قائداعظم کی دعوت پہ گئے تھے۔ اُنہوں نے پاکستان کو چُناتھا ہجرت نہیں کی تھی۔
23برس بعد بلکہ اِس سے بھی پہلے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک چلنے لگی۔مقامی لوگ اور سیاسی جماعتیں جو علیحدگی کی تحریک چلانے والی تھیں، وہ یہ توقع کر رہی تھیں کہ یہ لوگ بھی ہمارا ساتھ دیں جو نظریاتی طور پر ممکن نہیں تھا۔ یہ لوگ پاکستان کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔اُنہوں نے اُن کا ساتھ نہ دیا اور یہی اُن کا جرم بن گیا۔جب بنگلہ دیش بن گیاتو طاقت میں آنے والوں نے اُن سے بدلہ لیا۔ بہت بڑی تعداد میں اُن لوگوں کا قتل عام کیا گیا جو لوگ بچ گئے اُنہیں اُن کے گھروں سے نکال دیا گیا،کاروبار ختم، نوکریوں سے نکال کر کیمپوں میں ڈال دیا گیا۔
میرے والدین انڈیا کے اقلیتی صوبہ بہارسے آئے تھے۔ پاکستان آنے والے لوگوں کا تعلق کسی ایک صوبہ سے نہیں تھا۔ان میں آسام، تری پورہ، یو پی اور اس کے علاوہ مغربی پاکستان سے گئے ہوئے پٹھان، پنجابی، بلوچی یہ سب بھی وہاں رہتے تھے جو لوگ مغربی پاکستان سے گئے تھے وہ وہاں غیر بنگالی تھے۔وہ واپس مغربی پاکستان آگئے اُن کا تبادلہ ہو گیا۔ مسئلہ ان کے لیے بناجو انڈیا سے آئے تھے یا بہار، تری پورہ، آسام سے آئے تھے۔ دو بار ہونے والے قتل میں فوج کے لوگوں سمیت پانچ سے دس لاکھ لوگ مارے گئے جو لوگ بچ گئے عالمی ریڈ کراس کمیٹی نے اُنہیں کیمپ بنا دیئے۔ اِن کیمپوں میں ان کی تعداد5لاکھ40ہزار تھی۔ 1973ء میں دہلی میں بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ایک دوسرے ملک میں پھنسے ہوئے لوگوں کے تبادلے کامعاہدہ ہوا۔پاکستان میں جو بنگالی تھے انہیں بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش میں جو پاکستانی رہ گئے تھے اُن کو مغربی پاکستان لانا تھالیکن افسوس کہ اس وقت کی بیورو کریسی نے اُن غیر بنگالیوں کو لینے سے انکار کر دیا۔ پھر اس میں کچھ پیش رفت ہوئی اور کچھ لوگوں کو لے لیا گیا۔ تقریباً ایک لاکھ 73ہزار لوگ ری پیٹری ایشن سکیم کے تحت 1974ء میں آئے۔بنگلہ دیش میں اب بھی تین لاکھ پاکستانی موجود ہیں۔اُن کو پاکستان لانے اور بسانے کے فنڈز موجود ہیں مگر ملی جذبے اور روایتی اخوت کا فقدان ہے۔ ارشدنظامی نے آخر میں دعا کی کہ اللہ حکمرانوں کو ایسے جذبہ ایمانی سے سرشار کردے جس کے تحت بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی اپنے وطن آ سکیں۔
٭٭٭٭٭