پاکستان کیوں ٹوٹا!

اِس سال 16دسمبر ایسے موقع پر آیا ہے جب مسلح افواج پاکستان کے نئے سربراہ کی جانب سے سیاست سے کنارہ کشی کے قابل ِ ستائش اعلان کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ فوج کے سابق سربراہ کی الوداعی تقریر کو بھی تقریباً اتنے ہی دن ہوئے جس کی خاص بات یہ تھی کہ اِس میں 16 دسمبر کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال کیا گیااور یہ کہہ کر فوج کا وقار بحال کرنے کی کوشش کی گئی کہ سقوط ڈھاکہ فوجی نہیں،سیاسی شکست تھی۔سابق فوجی سربراہ کا یہ بیان مزید بھرپور اور معنی خیز ہوتا اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ اس زمانے میں فوج ہی سیاست کر رہی تھی بلکہ 13 سال سے کرتی چلی آ رہی تھی۔سابق آرمی چیف کے اس بیان میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سپاہیوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہمت اور جوانمردی سے ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا۔ اُن میں بریگیڈیئر سلطان جیسے ڈبل ستارہئ جرأت حاصل کرنے والے قابل ِ فخر جانباز بھی تھے جنہوں نے بنگالیوں کے ساتھ اپنے حُسن ِ سلوک کے سبب میمن سنگھ میں،جہاں وہ تعینات تھے،پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوا دیئے۔ جنگ کے دوران بھی اُنہوں جس شجاعت اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اُس کی بھارتی جرنیلوں نے اپنی کتابوں میں بھی تعریف کی ہے۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بقول بھارتی جنرل جیکب کے اگر جنرل نیازی اِس چال میں نہ آتے جو اُس نے نیازی کے ساتھ لنچ کے موقع پر اُن سے ہتھیار ڈلوانے کے لیے چلی تھی تو اگلے روز سرنڈر کے بجائے سیز فائر ہوتا اور تاریخ کچھ اور ہوتی۔
جنرل نیازی کے پاس 25ہزار سپاہی تھے جبکہ جنرل جیکب کے پاس صرف ڈھاکہ سے چند میل دور تین ہزار فوجی تھے جن کی بنا پر اُس نے جنرل نیازی کو یہ تاثردیا کہ ڈھاکہ کو ہرطرف سے گھیرے میں لے لیا گیا ہے اگر اُنہوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو اُنہیں اور اُن کی فیملی کو ناراض بنگالیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر وہ واپس چلے جائیں گے۔جنرل نیازی اُس کے دام آگئے، اِس لیے نہیں کہ وہ کمزور تھے بلکہ اِس لیے کے وہ بے خبر تھے۔ اُن کا ایک عرصے سے اسلام آباد سے رابطہ منقطع تھا اور وہ سفارتی سطح پاکستان کے حق میں رونما ہونے والے واقعات سے قطعاً بے خبر تھے، وہ مکمل طور پر اندھیرے میں تھے جس کی ذمہ داری اُن سے زیادہ جنرل یحییٰ خاں پر عائد ہوتی ہے جو اگرچہ ناجائز طور پر اقتدار پر قابض ہوئے تھے لیکن مختارِ کل تھے۔ یحییٰ خاں کا اقتداراِس لحاظ سے ناجائز تھا کہ ایوب خان کو اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے تحت اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کو منتقل کرنا تھا لیکن آئین کوایک بار پھر بالائے طاق رکھتے ہوئے یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔بالکل اُسی انداز میں جیسے ایوب خان نے 11 سال قبل سکندر مرزا سے حکومت حاصل کی تھی۔ 1958ء میں پیش آنے والا یہ واقعہ فوج کے بطور محکمہ سیاست میں ملوث ہونے کے عہد کا آغاز تھا ورنہ انفرادی طور پر تو ایوب خاں کی سیاست میں دلچسپی کی داستان ملک کی تاریخ کے آغاز سے جا ملتی ہے۔۔۔ ”جنرل اور سیاستدان تاریخ کے آئینے میں“ قیوم نظامی کی کتا ب ہے جس کے مطاطق قائداعظمؒ نے ایوب خان کی فائل پر لکھا تھا ”میں اُس فوجی افسر کو جانتا ہوں،یہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔ اسے مشرقی پاکستان تبدیل کیا جاتا ہے۔یہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوسٹ پر کام نہیں کرے گا“۔
قائداعظمؒ نے یہ احکامات اپنے وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشترکی رپورٹ پر دیئے تھے جو یوں تھی:”ایوب خاں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔اُن کا طرزِ عمل غیر پیشہ ورانہ ہے“۔ ایوب خان کو مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر سے تعاون کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن اُنہوں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں مہاجرین کے پورے قافلے ہی کو قتل کردیئے جانے جیسے سنگین واقعات رونما ہوئے جن کا ذکر شجاع نواز جنجوعہ نے بھی اپنی کتاب ”دی کراس سورڈز“ میں کیا ہے اور جن کی تفصیلات شرمناک ہیں۔شومی ئ قسمت دیکھئے کہ یہی شخص جس کے لیے قائداعظمؒ نے اِس قدر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا وہ برطانیہ اور امریکہ کی جانب اپنے جھکاؤ کے سبب پاکستان کی مسلح افواج اور پھر ملک کا سربراہ بنا جبکہ امریکہ مخالف رجحان رکھنے والے ترقی پسند سینئر فوجی افسر، جن میں جنرل اکبر خاں قابل ِ ذکر ہیں، پنڈی سازش کیس جیسے معاملات میں اسیر زنداں ہوئے۔
فوجی افسروں کے سیاست میں عمل دخل کے بارے میں قائداعظمؒ نے صاف صاف فرمایا تھا: ”تم لوگ اچھی طرح سمجھ لو کہ فوج عوام کی خادم اور ملکی سرحدوں کی محافظ ہے۔تمہارا کام قومی پالیسیاں بنانا نہیں،یہ سویلین حکومت کی ذمہ داری ہے“۔ قائداعظمؒ نے یہ بات قیام پاکستان کے وقت جنرل اکبر کو، جو اُس وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے، مخاطب کرتے ہوئے کہی تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل اکبر نے مقامی افسروں کو ترقی دینے کے بجائے کلیدی عہدے غیر ملکی فوجی افسروں کو دینے پر نکتہ چینی کی تھی جس پر قائداعظمؒ ناراض ہوئے تھے۔ قائداعظمؒ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی افسروں کی سیاست میں دلچسپی کے اتنے ہی خلاف تھے جتنے مذہب کا تعلق ریاست کے ساتھ جوڑنے کے لیکن اُن کی وفات کے بعد اُن کی ہدایات سے روگردانی کرتے ہوئے جہاں ایک طرف مذہب کو ریاست سے منسلک کرنے کے نتیجے میں قوم مختلف فرقوں میں بٹ کر پارہ پارہ ہو گئی وہاں فوجی افسروں کے ملک کی سیاست میں عمل دخل کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔اِس قومی سانحے کی ذمہ داری جنرل سکندر مرزا پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے مغربی پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے کا آلہ کار بن کر بنگالیوں کی اقتدار میں شرکت کا راستہ روکنے کے لیے مارشل لاء نافذ کرکے جمہوریت کا گلا گھونٹا تھا لیکن اُس سے بھی زیادہ یہ ذمہ داری ایوب خان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس مارشل لاء کی آڑ میں اپنی ناجائز حکومت قائم کرکے اُسے مختلف حیلوں بہانوں سے11سال تک طول دیا۔مشرقی پاکستان کے معاشی استحصال نے ایوب خان کی نام نہاد ترقی کے علمبردار 22 خاندانوں کو جنم دیا جن میں ایک بھی بنگالی شامل نہیں تھا۔
فوج اور انتظامیہ میں بھی جن کے ہاتھ میں اقتدار تھا بنگالیوں کی نمائندگی 12فیصد تھی۔ بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی اِس ناانصافی کو آخری شکل یحییٰ خاں کی بدنیتی نے دی جس نے تمام ممکنہ ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ سوچ کر آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کی حامی بھری تھی کہ اُن کے نتیجے میں منتخب ہو کر آنے والی سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی صدارت یعنی فوج کی بالا دستی قائم رکھ سکیں گے۔ بات بدنیتی تک ہی رہتی تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا لیکن جب اس میں یحییٰ خاں کی وہ بے رخی بھی شامل ہو گئی جس کا مظاہرہ انہوں نے نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کے ساحلوں پر آنے والے خوفناک طوفان سے متاثر ہونے والے لاکھوں بنگالیوں کے سلسلے میں کیا تھا تو بنگالیوں کی ناراضگی اپنی انتہاء کو پہنچ گئی اور اُنہوں نے اپنا سارا وزن عوامی لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ وہ سارا عمل برصغیر کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جو بڑے مستند طریقے سے پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر گیری باس کی نوبل پرائز کے ہم پلہ پلٹزر پرائز حاصل کرنے والی ”بلڈ ٹیلگرام“ نامی اُس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جو دراصل ڈھاکہ میں تعینات امریکی قونصل جنرل کے سچائی پر اڑ جانے کے نتیجے میں اُس کا سفارتی کیریئر تباہ ہو جانے کی کہانی ہے جس کی وجہ پاکستان، ہندوستان یا بنگلہ دیش کے حوالے سے ہر قسم کے تعصب سے مبرا ہے۔امریکہ کے ایوانِ صدر کے ریکارڈ پر مبنی یہ کتاب جس میں واشنگٹن،ماسکو اور اسلام آباد میں رونما ہونے والے واقعات کے ساتھ اس سازش کی تفصیل بھی درج ہے جو ہندوستان نے پاکستان کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کے لیے تیار کی تھی، پاکستان کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ریفرنس بک کے طور پر پڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔