لاہور ریڈیو کے 85سال

لاہور ریڈیو کے 85سال
لاہور ریڈیو کے 85سال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ریڈیو ساز و آواز کی دنیا، فنون لطیفہ کے ارتقاء، خبروں کی دنیا اور عوام کو حالات حاضرہ سے آگاہ رکھنے کا ادارہ ابتداء ہی سے موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ جب برصغیر میں اس ادارے نے آواز کا جادو جگانا شروع کیا تو لاہور کے حصے میں خوش نصیبی  85 سال قبل 16 دسمبر1937ء میں آئی اور تقریباً دس سال بعد ریڈیو لاہور کو یہ اعزاز ملا کہ خطہ لاہور سے ایک آواز گونجی اور وہ آواز 14 اگست 1947ء کو ریڈیو پاکستان کی آواز تھی۔ 
16 دسمبر1937ء کی ایک شام تھی، جب مال روڈ پر واقع وائی ایم سی اے کے ایک کمرے میں آل انڈیا ریڈیو لاہور کا آغاز ہوا۔ آل نڈیا ریڈیو کے ترقیاتی منصوبے کا یہ پہلا میڈیم ویو سٹیشن تھا۔ اِس سے پیشتر برصغیر کے اس علاقے میں صرف شمال مغربی سرحدی صوبے کے شہر پشاور میں ریڈیو سٹیشن قائم تھا جس کا مقصد اس صوبے کے علاوہ کابل کا احاطہ کرنا بھی تھا۔ پہلے سٹیشن ڈائریکٹر اے اے ایڈوانی مقرر ہوئے جو 12 جنوری 1938ء تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ آواز یعنی اناؤنسمنٹ سے لاہور ریڈیو کے افتتاح کا اعزاز ملک حسیب احمد کو حاصل ہوا۔ 
پہلے دن کے پروگرام میں علامہ اقبال کی ایک تقریر مولانا سالک نے پڑھ کر سنائی۔ اس تقریر میں پنجاب کے ثقافتی پس منظر کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ پہلے دن کے پروگرام میں مبارک علی خان، فتح علی خان کی قوالی اور مولانا محمد بخش مسلم کی تقریر بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو دہلی سے خبریں نشر کی گئیں۔ شروع میں صرف شام کی مجلس ہوتی تھی۔ اس وقت ریڈیو کا مقصد عوام کو تفریح مہیا کرنا تھا، اِسی بات کو سامنے رکھ کر پروگرام ترتیب دیے جاتے تھے۔ پروگراموں کی ترتیب میں 80 فیصد موسیقی اور 20 فیصد دوسرے پروگرام ہوتے تھے۔ جن پروگرام میں دیہاتی  بچوں اور عورتوں کے پروگرام کے علاوہ  تقریریں وغیرہ شامل تھیں۔بعد میں دوپہر اور شام کی مجلسیں بھی ہونے لگیں،پھر صبح کی مجلس یعنی پہلی مجلس بھی ہونے لگی۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال اور دیگر شعراء کے نغمے براڈ کاسٹ کئے جاتے۔ دوپہر کو فلمی گانے اور خبریں ہوتیں۔ خبریں آل انڈیا سے نشر کی جاتیں۔ 


ڈرامے کے فنکار اس زمانے میں طفیل فاروقی، امیر خان، رفیع پیر، امتیاز علی تاج، اچلا سچدیو، پروفیسر ہنراج، اوماکشیب شام سندرا، رملا کور تھے۔ اس کے علاوہ سلمیٰ تصدق حسین بھی ڈراموں میں آیا کرتی تھیں۔ سید امتیاز علی تاج ڈرامے لکھتے بھی تھے اور ان میں حصہ بھی لیتے تھے۔سید عابد علی عابد تاریخی ڈرامے لکھتے تھے۔ اس زمانے میں آج کے دور کی طرح جدید سہولتیں حاصل نہیں تھیں۔ مرزا ادیب، سعادت حسن منٹو،کرشن چندر اور امرتا پریم کے ڈرامے بھی وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہتے۔ ڈرامہ ہفتے میں ایک بار رات کو ہوتا تھا۔ اِس زمانے میں میوزک کے پروگراموں کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ کمپوزر کوئی نہیں ہوتا تھا، سب اپنی بنائی ہوئی دھنوں میں گاتے تھے۔ روزانہ دو کلاسیکل گانے والے اور دو ہلکا پھلکا گانے والے آرٹسٹ رکھے جاتے۔ شمشاد بیگم اور امراؤ ضیاء بیگم گیت، غزل اور نعت پیش کرتیں۔
دیہاتی پروگرام میں اوم پرکاش، طفیل فاروقی اور شیخ اقبال ہوتے تھے۔ اوم پرکاش کے بعد مرزا سلطان بیگ دیہاتی پروگرام میں آئے۔ 1939ء میں موہنی داس (آپا شمیم) نے لاہور ریڈیو سٹیشن میں شمولیت کی تو بچوں کا پروگرام بھی انہوں نے کیا۔ خبریں دہلی سے نشتر ہوتیں تھیں جو شکیل احمد اور انور بہزاد  پڑھتے تھے۔ ان دنوں  مشاعروں میں حفیظ جالندھری، عابد علی عابد، ہری چند اختر، جگن ناتھ آزاد اور فیض احمد فیض حصہ لیتے تھے۔ پاکستان بننے سے چند سال پیشتر طالش، سنتوش کمار اور درپن بھی لاہور ریڈیو کے ڈراموں میں حصہ لیتے رہے۔
اس زمانے میں لاہور ریڈیو سے عبدالقادر اور ظہور آزار بھی تقریریں کرنے لگے۔ آغا حشر کے ڈرامے بھی نشر ہونے لگے جن پر بہت محنت کی جاتی۔ بعد کے دنوں میں اخلاق احمد دہلوی، صوفی غلام مصطفی، یوسف ظفر، اشفاق احمد، شاد امرتسری، ن م راشد، اعجاز حسین بٹالوی، رضی ترمذی، حفیظ ہوشیار پوری، مختار صدیقی، ممتاز مفتی، مرزا ادیب، اے حمید، مولانا صلاح الدین احمد، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، پروفیسر وقار عظیم، عبادت بریلوی نے اپنے علم و فن سے اس صحرا کو گل و گلزار بنایا، فیچر اور ڈراموں کے ذریعے اپنے فن کے موتی بکھیرے۔


موسیقی کے پروگراموں میں جن موسیقاروں اور گلوکاروں نے ابتداء میں کام کیا ان میں نیاز حسین شامی، بھائی لعل محمد، امیر علی خان، روشن آرا بیگم، نزاکت علی، سلامت علی، امانت علی، فتح علی، زاہدہ پروین، فریدہ خانم، منور سلطانہ، استاد برکت علی خان، بڑے غلام علی، مبارک علی خان، طبلہ نواز استاد شوکت حسین، عابد علی بیلا، پیانو کے ماسٹر، ماسٹر صادق، سائیں اختر حسین، محبوب قادری، شوکت علی، استاد جھنڈے خان، طفیل فاروقی، ماسٹر عنایت حسین، حسن لطیف، سلیم اقبال، اقبال بانو، ثریا ملتانی کر، کوثر پروین، طفیل نیازی  (جنہوں نے اقبال کی مشہور نظم لب پر آتی ہے دعا کی طرز بنائی جو آج ملک بھر کے سکولوں میں اسی طرز میں پڑھی جاتی ہے) شامل تھے۔ شاعروں میں  ملک کا شائد ہی کوئی شاعر ہوگا جس نے ریڈیو سے اپنا کلام انفرادی طور پر مشاعروں میں اور غزل، نظم اور دیگر کلام پیش نہ کیا ہو۔ ریڈیو لاہور اہل لاہور کی اردو درست کرنے کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ 
ریڈیو لاہور نے بالخصوص شعبہ زراعت، موسیقی، مذہبی پروگرام، ادبی سلسلے اور ڈراموں کے حوالے سے خاص شہرت حاصل کی ہے۔ یہ سنٹر باقاعدہ ایک علمی، ادبی، ثقافتی مرکز بھی ہے۔ اِس کے بعض پروگرام اس کی شناخت ہیں جن میں ”تلقین شاہ“، ”جمہور کی آواز“، ”ندائے حق“، ”فوجی بھائیوں کا پروگرام“، ”پنجابی دربار“ اور بچوں کا پروگرام ”ہونہار“ شامل ہیں۔


1965 ء کی 17 روزہ جنگ میں ریڈیو لاہور نے جذبہ حب الوطنی ابھارنے میں جو خدمات پیش کیں وہ اس نشریاتی ادارے کا ایک طرۂ امتیاز ہے۔ اس کے علاوہ جنگ کے حالات اور ان سے متعلق خبروں کا تیز ترین اور سب سے موثر ذریعہ بھی ریڈیو لاہور ہی تھا جس پر پورا ملک انحصار کر رہا تھا۔ آزمائش کے ان سترہ دنوں میں ریڈیو کے فنکار، موسیقار اور گلوکار بھی کسی سے پیچھے نہ رہے  جنہوں نے سترہ دنوں میں 72 ترانے لکھے، کمپوز کیے، گائے اور نشر کیے، جو ایک ریکارڈ ہے۔الغرض ریڈیو لاہور پاکستان کی آواز ہے جو پاکستان کے عوام کے ساتھ ہم آواز ہے۔

مزید :

رائے -کالم -