افضل گرو کی پھانسی

افضل گرو کی پھانسی
افضل گرو کی پھانسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”گلگت و بلتستان“ لالک جان شہید(نشان حیدر) جیسے پاکستان سے پیار کرنے والوں کی دھرتی ہے،یہاں منافرت اور ہرطرح کے تعصبات کو ہوا دینے کی غرض سے بھارتی خفیہ ادارے را اور آئی بی اور ان کے گرگے ریسرچ اور صحافت کی آڑ میں ایک منظم مہم چلا رہے ہیں تو دوسری جانب برہمنی انصاف کی مثالیں یوں تو 15اگست 1947ءکو بھارت کے قیام سے لے کر آئے روز کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتی رہتی ہیں، مگر 9فروری 2013ءکا دن اس حوالے سے اور بھی سنگین ثابت ہوا، جب افضل گرو کو تہاڑ جیل دہلی میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور یوں جدوجہد آزادی کشمیر میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہوا، جس کے منطقی نتائج بہرصورت بھارت کی ریاست، معاشرت اور سیاست پر مرتب ہوکر رہیں گے۔
اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ اگرچہ انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ تلخ سبق حاصل ہوتا ہے کہ بالعموم تاریخ سے بہت ہی کم افراد یا اقوام سبق حاصل کرتی ہیں، وگرنہ دنیا میں تلخ حوادث اتنے تسلسل کے ساتھ رونما نہ ہوں، مگر بھارت تو اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی آگے نکل چکا ہے۔برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کی ساڑھے 65برس کی بھارتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ناقدین کی یہ رائے حقیقت پر مبنی نظر آتی ہے کہ دہلی کے سیاسی حکمرانوں اور برہمن منصفوں نے یہ وطیرہ اپنا رکھا ہے کہ ان کے یہاں پرندوں اور جانوروں کو مارنے پر تو اچھی خاصی پابندی ہے، مگر بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق سے ہولی کھیلنا بھارتی بالادست طبقات کا طرئہ امتیاز نظر آتا ہے۔تبھی تو ان دنوں بھی ہندوستان کے چند چوٹی کے مسلمان اداکاروں مثلاً سلمان خان وغیرہ کے خلاف ہرن مارنے پر”جودھپور، راجستھان“ کی عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے بھارتی اداکار سیف علی خان کے والد مرحوم نواب منصور علی خان پٹودی کے خلاف بھی کالا ہرن مارنے کے جرم میں مقدمہ چلا تھا۔
واضح رہے کہ نواب منصور علی خان پٹودی نہ صرف بھارتی کرکٹ ٹیم کے لمبے عرصے تک کپتان رہے، بلکہ ان کے والد مرحوم افتخار علی خان پٹودی متحدہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کے بھی کپتان رہ چکے تھے، مگر چونکہ ان نامور افراد کا تعلق مسلمان قوم سے ہے، اسی وجہ سے ہرن مارنے پر ان کے خلاف بھارتی ریاست نے مقدمہ درج کر ڈالا۔ افضل گرو سے پہلے 11فروری 1984ءکو سفاک بھارتی حکومت نے کشمیری مجاہد مقبول بٹ کو بھی جرم بے گناہی میں تختہ دار پر لٹکایا تھا اور انہیں بھی تہاڑ جیل دہلی کے اندر ہی دفن کردیا گیا تھا، مگر کیا یہ پھانسیاں کشمیری تحریک آزادی کو کچلنے میں معاون ثابت ہوئیں، اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے، بلکہ مقبول بٹ کی شہادت کے بعد ہی تحریک آزادی میں نئی جان پیدا ہوئی اور اس راہِ آزادی میں اب تلک ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
افضل گرومقبوضہ کشمیر کے ضلع سوپور کے گاﺅںآباغ میں 1969ءمیں پیدا ہوئے، ان کے والد حبیب اللہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ افضل گرو نے 1986ءمیں میٹرک کیا، وہ بہت ہونہار سٹوڈنٹ تھے، ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں انہیں باآسانی داخلہ مل گیا۔ایم بی بی ایس کا پہلا سال مکمل کرنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سفاک روپ انہیں دیکھنا پڑتا تھا، غالباً اسی وجہ سے دل جمی سے پڑھائی پر توجہ نہ دے سکے، اسی دوران وہ اپنی خداداد ذہانت کے بل بوتے پر مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔اپنی قوم پر ہونے والے مظالم نے انہیں غاصب بھارتیوں کے خلاف جاری تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔
بھارتی پارلیمنٹ پر مبینہ طور پر 13دسمبر2001ءکو حملہ ہوا، اس میں ملوث ہونے کے الزام میں افضل گرو گرفتار کرلئے گئے۔2002ءمیں خصوصی عدالت نے انہیں موث کی سزا سنائی۔2003ءمیں دہلی ہائی کورٹ نے اس کی تائید کردی، جبکہ2005ءمیں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی اپیل خارج کردی۔2006ءمیں بھارتی سپریم کورٹ نے داخلی سیاسی وجوہات اور عالمی رائے عامہ کے ممکنہ دباﺅ کے پیش نظر ان کی سزائے موت پر عمل تاحکمِ ثانی معطل کردیا۔ اس دوران بھارتی صدرپرناب مکھرجی نے 23جنوری 2013ءکو ان کے رحم کی اپیل بھی خارج کردی اور ان کی موت کے بلیک وارنٹ جاری کردیئے گئے۔
اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ برہمنی سپریم کورٹ نے ان کو موت کی سزا دینے کے حکم نامے میں لکھا کہ اگرچہ 13دسمبر2001ءکے بھارتی پارلیمنٹ حملے میں ملوث ہونے کے کسی قسم کے ٹھوس شواہد افضل گرو کے خلاف نہیں ملے، مگر بھارت کے اجتماعی عوامی احساسات کی تسکین کی خاطر انہیں سزائے موت دینا ضروری ہے۔یوں کسی قانونی اور اخلاقی ضابطے کے بغیر9فروری 2013ءکی صبح افضل گرو سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا گیا اور مرحوم شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔نامور بھارتی انسان دوست دانشور بشمول ارون دھتی رائے کی رائے ہے کہ افضل گرو کو تختہ دار پر لٹکا کر خود بھارتی سالمیت کے مستقبل کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ہے،نہ صرف ان کے عزیز و اقارب کو مروجہ طریقے سے آخری ملاقات نہیں کرائی گئی، بلکہ ان کے جسدخاکی کو بھی مقبول بٹ کی مانند تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کردیا گیا۔گویا بہادر شاہ ظفر کے بقول:
پسِ مرگ قبرپہ اے ظفر، کوئی فاتحہ بھی کہاں پڑھے
وہ جو ٹوٹی قبر کا تھا نشان، اسے ٹھوکروں سے اُڑا دیا
مگر غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ اسے سوئے اتفاق کہا جائے یا حسن اتفاق کا نام دیا جائے کہ مقبول بٹ شہید کو 11فروری 1984ءکو تختہ دار پر چڑھایا گیا،جبکہ افضل گرو کے نام کا قرعہ 9فروری 2013ءکو نکلا، مگر یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ مقبول بٹ کی پھانسی تحریک آزادی کشمیر کا بڑا موڑ ثابت ہوئی، جس کے بعد اس میں بے پناہ شدت آئی، بظاہر یہی لگتا ہے کہ افضل گرو کا خون بھی رائیگاں نہیں جائے گا اور ان کی شہادت آزادی کشمیر کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
بہرحال مقبول بٹ اور افضل گرو جیسے جانبازوں نے راہ آزادی میں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ”دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں، آزاد منش انسانوں کے یاتختہ جگہ آزادی کی، یا تخت مقام آزادی کا“۔ دوسری جانب نریندر مودی اور کرنل پروہت جیسے سفاک دہشت گردوں کی آزادی برہمنی انصاف کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے۔

مزید :

کالم -