پھاگن تے کندھیاں لاگن
دنیا کی ہر تہذیب ایک خطے سے وقوع پذیر ہوتی ہے اگر خطے کو الگ کر لیا جائے تو تمدن اپنی پہچان کھو بیٹھتا ہے ہم انسان دراصل اپنی پہچان کے لئے جس بنیادی کلیہ کا سہارا لیتے ہیں وہ دراصل خطے پر مشتمل ہوتا ہے ایک فارسی عرب میں اس لئے فارسی کہلاتا ہے کہ وہ فارس سے ہے چنانچہ وہ عرب میں رہتے ہوئے بھی اپنی پہچان کے لئے اپنے خطے کا حوالہ دے رہا ہوتا ہے اس لئے منطقی لحاظ سے اقوام اوطان سے بنتی ہیں گر وطن نہیں تو قوم نہیں گر قوم نہیں تو پہچان نہیں کیونکہ قوم دراصل پہچان کا بنیادی کلیہ ہے ہم پاکستانی جوکہ ایک نئی تہذیب کے بانی تھے آج درحقیقت ہم اپنی تمدنی معرفت کھو بیٹھے ہیں نظریاتی طور پر ہم عربی اور ایرانی تمدن کے مطیع ہیں تو تعلیمی، سماجی اور سیاسی طور پر انگریزی تمدن کے گرویدہ اور کیوں نہ ہوں کہ یہی آج ہماری پہچان ہے یہ پہچان ہماری اصلی ہے یا ملمعاتی اس بحث سے گریز کرتے ہوئے مجھے آج سنسکرتی تہذیب پر بات کرنی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم آج اپنی سنسکرتی تہذیب سے بیگانہ ہو چکے ہیں بلکہ اس تہذیب سے اپنا تعلق جوڑنے کو قبیح اور باعثِ شرم سمجھتے ہیں اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں کیونکہ ہمیں جو کچھ معاشرہ انجیکٹ کرتا ہے وہی سیکھتے ہیں اور جن معاشروں میں تحقیق و جستجو عام نہیں ہوتی وہاں تقلید ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے پائی جاتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم عرب نہیں ہیں اور نہ ہی عربی تہذیب ہماری آبائی تہذیب ہے مگر اس کے باوجود بھی ہم عربی تہذیب و تمدن پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنی آبائی تہذیب پر شرمندگی بلکہ کسی حد تک اسے قبیح تک سمجھتے ہیں آفاقی سچ تو یہ ہے کہ سوچ یا نظریہ تبدیل کر لینے سے رگوں میں دوڑتا ہوا خون رنگ نہیں بدلتا مگر ہم اپنی ترجیحات ضرور بدل لیتے ہیں ہم اپنے عقائد اور اصول ضرور بدل لیتے ہیں خیر یہ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے جس کی سچائی ہر نفس پر ظاہر نہیں ہو سکتی
پھاگن ہمارے بکرمی کیلنڈر جوفی الحقیقت ہمارا علاقائی کیلنڈر ہے کا آخری مہینہ ہے جیسے عربی کیلنڈر کا ذوالحجہ اور انگریزی کیلنڈر کا دسمبر ہے ہم نے بچپن میں اپنے بزرگوں سے ہمیشہ بکرمی مہینوں کے نام سنے ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ کبھی ہم نے عربی یا انگریزی کیلنڈر کے مہینوں کے نام بزرگوں کی زبان سے سنے ہوں اور اسکی ایک ہی سادہ سی منطق سمجھ آتی ہے کہ انسان جتنا چاہے تہازیب بدل لے بودوباش بدل لے مگر اپنے خطے کا تمدن اسکی فطرت میں تحلیل ہو جاتا ہے بلکہ اگر ایسا کہا جائے کہ انسانی فطرت دراصل علاقائی تہذیب کے خطوط پر استوار ہوتی ہے تو بے جا نہ ہو گا پھاگن موسمی لحاظ سے بہت ہی خوبصورت اور معتدل مہینہ ہے ہمیں یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں جب ہمارے بزرگ کہتے کہ ’’پھاگن تے کندھیاں لاگن‘‘ تو ہم کافی حیران ہوتے کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے مگر بعد میں سمجھ آئی کہ پھاگن میں چونکہ دھوپ گرم اور سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے اس لئے اس ماہ میں مسلسل دھوپ میں نہیں بیٹھا جا سکتا ہے چنانچہ تھوڑی دیر دھوپ میں بیٹھنے کے بعد فوری سایہ کی جانب لپکنا پڑتا ہے پھاگن آخری مہینہ ہے اس کے بعد پھر بکرمی کیلنڈر کی سنگراند( ابتداء) ہوتی ہے چیت، بیساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، بھادوں، اسوج، کاتک،مگھر،پوہ، ماگھ، پھاگن، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بکرمی کیلنڈر دراصل دنیا کا سب سے پہلا باقاعدہ کیلنڈر ہے جس کا آغاز ہندوستان کے انتہائی نیک دل بادشاہ وکرم ادتیا نے 57 قبل مسیح میں کیا ہندوستان کی تہذیب اور تاریخ دنیا کی سب سے اولین تہذیب و تاریخ ہے اس کے آثار قدیم سمیری، فنیقی، اور یونانی تہازیب سے بھی پہلے ملتے ہیں قریباً دس ہزار سال پہلے ہندوستانی کھیتی باڑی اور اناج اگانا جانتے تھے دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی تیکشلا یونیورسٹی موجودہ ٹیکسلا پاکستان میں قائم کی گئی تھی جس میں قریباً دس ہزار سے زائد طلبہ اور 200 کے قریب اساتذہ اس زمانے میں طب، ریاضی، فلاسفہ، لسانیات، فلکیات،علم نجوم اور فنون لطیفہ کے علاوہ 68 مضامین پڑھایا کرتے تھے ان طلبہ کا تعلق یونان، مصر، حجاز، عراق، ترکی اور چائنہ سے تھا تیکشلا یونیورسٹی کے آثار آج بھی موجود ہیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں وہ اقوام جو اپنی تہازیب سے بیگانہ ہو جاتی ہیں اور گمراہ ہو جاتی ہیں وہ قومیں جو اپنی تہازیب بدل لیتی ہیں
نظریہ طبیعت بدل دیتا ہے مگر فطرت نہیں، فطرت کبھی نہیں بدلتی اور فطرت کے اجزائے ترکیبی درحقیقت جغرافیائی تمدن سے نمو پاتے ہیں انسان علمی و تکنیکی ترقی کے اوج پر پہنچ چکا مگر آج تک انسانی تعارف کی مبادیات نہ بدل سکا انگریز ڈیڑھ سو سال ہندوستان میں حکومت کر گیا مگر رہا انگریز ہی گویا ہندوستانی نہ بن سکا اور کیوں بنتا کہ دنیا کا کوئی بھی نظریہ، اصول اور قانون ایسا نہیں جس کے ذریعہ انسان اپنی جغرافیائی پہچان بدل سکے تہازیب بدل جاتی ہیں رویے بدل جاتے ہیں مگر خطے سے گْندھی ہوئی انسانی فطرت نہیں بدلتی یہ نہیں کہ انسان نے اسے بدلنے کی کوشش نہیں کی بارہا کر چکا مگر آج تک انسان ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا اور نہ ہی مستقبل میں کامیاب ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں کیونکہ جغرافیہ محض زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ ایک مدون تمدن کا ڈپو ہوتا ہے نظریہ یا عقیدہ جس قدر بھی اہمیت کا حامل کیوں نہ ہو جائے انسان سے اسکی جغرافیائی پہچان نہیں چھین سکتا کیونکہ نظریات اور عقائد انسان کو معاشرت سے ملتے ہیں اور انسانی فطرت جغرافیائی تمدن اور عالمگیر انسانی شعور سے مرکب ہوتی ہے انسانی فطرت کی مبادیات میں بنیادی کردار نسلی طینت، جغرافیائی تمدن اور عالمگیر انسانی شعور کا ہوتا ہے عالمگیر انسانی شعور تو ہر خطے کے انسانوں میں قریباً یکساں ہوتا ہے تبدیلی نسلی طینت اور جغرافیائی تمدن سے پیدا ہوتی ہے اور یہی پھر انسان کی حتمی پہچان بن جاتی ہے جو بہرصورت غیر مبدل ہی رہتی ہے ۔