بسنت کا تہوار معاشی اور ثقافتی ضرورت یا جان لیوا مشغلہ
فروری کے مہینے میں ویلنٹائن ڈے اور بسنت دو ایسے تہوار ہیں جو ہمارے معاشرے میں سماجی اور ثقافتی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ بسنت کے حوالے سے خواتین کی آگاہی کے لئے میں اپنی معلومات ان سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ معلومات بسنت کے تہوار کے بارے میں ان پر بہت سے حقائق کے دَر وَا کریں گی۔
فروری فطرت کی انگڑائی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں سورج کا زاویہ بدلتا ہے، رُت بدلتی ہے، موسم میں تبدیلی محسوس ہوتی ہے اور طبیعت میں ایک نئے پن کا احساس جاگتا ہے۔ دیہی علاقوں میں پیلی سرسوں پھولتی ہے۔ فضا میں فراغت کی چاشنی گھلتی ہے اور دل کی دھڑکنوں پر میلے میں بجنے والے ڈھول کا گمان ہوتا ہے۔
فروری میں سینٹ ویلنٹائن ڈے کی گہما گہمی ہوتی ہے اور فروری ہی میں بسنت کا شوروغوغا ہوتا ہے۔ اس بار بھی حکومت کی جانب سے بسنت کے اہم عنصر یعنی پتنگ بازی کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ دینی جماعتوں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد اور انجمنوں کی جانب سے بسنت کے غلاف شدید لہجے میں احتجاج کیا گیا تھا جبکہ اس دن کو منانے کے حق میں بولنے والے اس بار اپنے تقاضوں میں دھیمے ہی رہے۔
دنیا کے دیگر شہروں میں بسنت کا تہوار بس ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے اختتام پر لوگ اپنی پتنگیں اور ڈور جلا دیتے ہیں تاکہ اگلے روز سے اپنے روزمرہ کے کاموں میں یکسوئی کے ساتھ مصروف ہو سکیں۔ اس کے برعکس پنجاب کے شہروں میں یہ مشغلہ سارا سال جاری رہتا ہے جس کے نتیجہ میں قباحتیں جنم لیتی ہیں۔
بسنت پر پابندی کا سب سے بڑا جواز پیسوں کے ضیاع کے علاوہ اس تہوار کی ہلاکت خیزی ہے۔ اس دن پتنگ بازی کرنے والوں نے کچھ برسوں سے جو قبیح حرکت شروع کررکھی تھی، اس میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا تھا۔ جس ڈور سے پتنگیں اُڑائی جاتی تھیں اسے اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ وہ مضبوط دھاگے کی بجائے گلا کاٹنے والی تار کا روپ اختیار کر لیتی تھی۔
یوں بسنت جو ایک بدلتی رُت کی سماجی و تہذیبی صورت تھی، عاقبت نا اندیشوں کے ہاتھ چڑھ کر ایک جان لیوا رسم بن گئی۔
برصغیر پاک و ہند میں بسنت پنجابی کیلنڈر کے حساب سے منائی جاتی ہے۔ یہ ماگھ کے مہینے ، جو اخیر جنوری یا شروع فروری میں آتا ہے، کے پانچویں روز منائی جاتی ہے۔ پنجاب کے سبھی مذاہب کے لوگ بہار کے اس تہوار کو ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ ایک کہاوت اس بارے میں مشہور ہے کہ آئی بسنت ، پالا اُڑنت یعنی بسنت کے آتے ہی سردی کے زور کا ٹوٹ جانا ۔ بسنت کے روز پتنگ بازی کے ساتھ ساتھ پیلے رنگ کے بسنتی کپڑے موسم کی تبدیلی کی مناسبت سے پہنے جاتے ہیں۔ لڑکیاں بالیاں مہندی لگاتی ہیں اور بسنتی پیرہنوں کے ساتھ ماحول میں بسنت کے تہوار کو ایک متحرک صورت دیتی ہیں۔ مختلف مقامات پر میلے ٹھیلے لگتے ہیں اور موسم بہار کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
گزرے دنوں میں لاہور، امرتسر اور قصور تین بڑے شہر تھے جہاں پتنگ بازی پورے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی تھی۔ آزادی سے قبل سیالکوٹ، گوجرانوالہ، اور گورداسپور تین شہر اور تھے جہاں بسنت کی تقریبات اہمیت رکھتی تھیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بسنت پر پتنگ بازی کا باقاعدہ اہتمام انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دورِ حکومت میں پنجاب میں شروع کیا تھا۔ تب تہوار کی مخصوص رسوم کو منانے کے ساتھ ساتھ بزرگ صوفی حضرات کے مزاروں اور مقابر پر عرسوں اور میلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا۔ بسنت کے تہوار کے ساتھ ہی پتنگ بازی کی رسم نے لاہور میں مقبولیت حاصل کی تھی اور یوں یہ مشغلہ پنجاب کی روایات کا مستقل حصہ بن گیا تھا۔
بھلے دن تھے وہ جب بسنت کا تہوار سچی خوشی اور مسرت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ ہفتوں پہلے پتنگیں اور گڈیاں دکانوں پر سج جاتی تھیں۔ خالی جگہوں پر لکٹری کے ستون گاڑ کر ڈور کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ دھاگے پر لگنے والا مانجھا تب گردنیں نہیں کاٹتا تھا صرف انگلیوں پر معمولی چِیرے(زخم) چھوڑتا تھا۔ ڈور کے پِنّے اور چرخیاں کئی دن پہلے اکٹھی کر لی جاتی تھیں۔ پتنگیں لوٹنے والے لمبے بانسوں پر ببول والی جھاڑیاں باندھ کر اپنے مشغلے کا پورا انتظام کرتے تھے۔ بسنت سے ایک دن پہلے ہی قیمے والے نان یا نان و کباب کا اہتمام کر لیا جاتا تھا۔ بسنتی رنگ کے پیرہن تیار ہوتے تھے اور بسنت کی صبح ، فجر کی اذان کے ساتھ ہی، گھروں کی چھتوں، منڈیروں اور مَمٹیوں پر چڑھ کر لوگ اپنی پتنگیں آسمان کی وسعتوں میں لہرا دیتے تھے۔ کھلے پارکوں اور باغات میں منچلوں کی ٹولیاں پتنگ بازی کے مقابلوں کا انعقاد کرتی تھیں۔ وہ کاٹا اور بوکاٹا کے نعرے صبح سے لے کر رات گئے تک شہر کے ردھم کا حصہ بنتے تھے۔ بسنت کی رات کو مائیں اپنے پتنگ باز بچوں کے کھانے کے لئے سفید چاول اُبالتی تھیں اور چاولوں کے پانی (پچھ) سے ان کے ہاتھ دھوتی تھیں جو نہ صرف ڈور کے مانجھے کو صاف کرتا بلکہ ان کے زخموں کو مندمل ہونے میں مدد دیتا تھا۔آہستہ آہستہ اس تہوار کوبھی مالی مفادات ، خود غرضیوں اور تکبر، پیسے کی حرص، بے علمی اور جہالت اور جھوٹی انا کے گہن نے اپنے حصار میں لے لیا اور ایک اچھے خاصے پر لطف دن کو اندھیروں کی نذر کردیا۔ بسنت کا تہوار نہ صرف جان لیوا قرار پایا بلکہ اسے ایک ایسے ہندو کردار ، حقیقت رائے، سے منسوب کردیا گیا کہ جس کا وجود شکوک و شبہات کی سیاہی میں لتھڑا ہوا ہے۔ حقیقت رائے کی کہانی ہندوستان کی تاریخ کے اس عہد کی پیداوار ہے جب ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا پودا قوتِ نمو پکڑ رہا تھا۔
برصغیر کے ہندو بسنت پنچھمی کے تہوار سے ایک کردار حقیقت رائے کا تعلق جوڑتے ہیں۔ سکھ قوم حقیقت رائے کو حقیقت سنگھ کے نام سے پکارتی ہے جو سیالکوٹ میں 1719ء سے 1724ء کے درمیان پیدا ہوا تھا اور جس نے 12سال کی عمر میں امرت پی کر سکھ دھرم اختیار کر لیا تھا۔ اس کے برعکس آریا سماج والے اسے دھرم ویر حقیقت رائے کہتے ہیں اور قوم کی خاطر موت قبول کرنے والے شخص کا درجہ دیتے ہیں۔ حقیقت رائے کی وفات کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ روایات ہیں کہ پنجاب میں نواب زکریا خان کے عہد میں 1732، 1735، 1742ء یا 1791ء میں اس کا سر قلم کیا گیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حقیقت سنگھ کو سکھ قوم پرست مقتول قرار دیا تھا۔ 1782ء میں ایک ہندو شاعر نے ’حقیقت رائے دی وار‘ کے عنوان سے ایک طربیہ لکھا تھا۔ تاہم 1905-1910ء میں جو تقسیم بنگال کا عرصہ ہے، تین بنگالی لکھاریوں نے اپنے مضامین میں حقیقت رائے کو شہید قرار دیتے ہوئے اسے مقبولیت دی۔ یہ بات البتہ قابل ذکر ہے کہ تینوں لکھاریوں کے مضامین میں انتہائی اختلاف اور گہرے تضادات پائے جاتے ہیں۔ اس امر کی وضاحت بھی نہیں ملتی کہ بسنت کے تہوار کو حقیقت رائے سے کیونکر منسوب کیا گیا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے فروری کے مہینے میں موسم بہار کی آمد پر بسنت کے تہوار کو تقویت دینے کے لئے حقیقت رائے کو برصغیر کا سینٹ ویلنٹائن بنا دیا گیا تھا۔
بسنت کے تہوار سے متعلق اب مسئلہ کوئی بھی ہو، حقیقت رائے کا نام بسنت کی بحث میں اس طرح دَر آتا ہے کہ اصل حقائق بے معنی اور بے وقعت قرار پاتے ہیں۔ اور گروہی مفادات پر مبنی مفروضے نمایاں اور اہم ہو جاتے ہیں۔ بہر حال دانش و حکمت یہی سکھاتی ہے کہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے اور نئی نسل کی ذہنی اصلاح اس طرح کی جائے کہ ان کے اندر پیدا ہونے والی مثبت تبدیلی ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہو۔