افغان مہاجرین یا پاکستان ۔۔۔ سکون اور امن کی ترجیحات

افغان مہاجرین یا پاکستان ۔۔۔ سکون اور امن کی ترجیحات
افغان مہاجرین یا پاکستان ۔۔۔ سکون اور امن کی ترجیحات

  

لاہور اور پشاور مین حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ایک بار پھر نظریں افغان مہاجرین کی جانب اٹھ گئی ہیں اور ملک بھر میں انکی تلاشی لی جانے لگی ہے۔پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے ڈیڈ لائن میں توسیع کردی ہے اور اسے مارچ 2017ء سے تبدیل کرکے دسمبر 2017ء کردیاگیا ہے۔ پاکستان 1978ء سے افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرتا آرہا ہے۔ تقریباً 30 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان یہاں موجود تھے جن کے باعث پاکستان کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور خارجہ معاملات میں زبردست منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پاکستان کو دہشتگردی، نشہ، اسلحہ، اغواء وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں افغان شہری کسی نہ کسی طرح ملوث پائے گئے۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے بہت قربانی دیں لیکن پاکستان کو اس سلسلے میں ہر طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے دوسرے اسلامی برادر کی نسبت افغانیوں کے لئے دل و در کے دروازے زیادہ کھول دئے اور سگے بھائیوں کی طرح رکھا۔

افغان جنگ کے شروع میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین نے پاکستان اور ایران کی جانب کوچ کیا۔ کئی افغان دیگر 15 ممالک میں بھی جابسے۔ پاکستان میں 30 لاکھ مہاجرین آئے جبکہ اتنی ہی تعداد ایران میں بھی گئی۔ ایران نے ان مہاجرین کو محدود رسائی دی اور اپنے ملک میں داخلہ کی محدود علاقہ تک مخصوص رکھا۔ پاکستان میں ایسی کوئی پابندی نہ تھی اور ملک کے ہر کونے میں مہاجرین جابسے۔ متحدہ عرب امارات میں تین لاکھ مہاجرین گئے جبکہ امریکہ میں بھی ایک لاکھ مہاجرین آباد ہوئے۔

افغان مہاجرین 1978ء کے بعد سے آئے تھے لیکن سوویت افواج کی واپسی کے فوری بعد کچھ مہاجرین نے اپنے ملک جانا چاہا لیکن افغان طالبان اور خانہ جنگی کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ 2011ء میں مزید مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے جس سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات بھی ہوئے۔ دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کے نتیجہ میں معصوم بچوں کی شہادت ہوئی تو پاکستان میں افغان مہاجرین کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور چیکنگ شروع کردی گئی اور آپریشن ضرب عضب بھی پوری فورس سے جاری تھا۔ ایسے میں ہزاروں مہاجرین نے فوری واپسی شروع کردی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً چھ لاکھ افغان مہاجرین واپس جاچکے ہیں۔

اگرچہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ان مہاجرین کو واپس نہیں کرنا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بھارتی مداخلت، امریکی افواج کی موجودگی اور خود افغان حکومت کی پالیسیاں پاکستان میں ہونے والے پے درپے واقعات کا حصہ ثابت ہوچکے ہیں۔ افغان مہاجرین کی محدودیت اور واپسی کے باعث پاکستان میں حالات معمول پر آئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد شاید ان معاملات میں ملوث نہ ہو لیکن جو لوگ انہی کا حصہ ہیں وہ یقیناً اس ساری بربادی کے حصہ دار ہیں۔ پاکستان کی معیشت بہت دباؤ کا شکار رہی ہے اور پاکستان نے عالمی سیاست میں اپنے حصے کئی خرابیاں اور ناکامیاں بھی سمیٹی ہیں، اس لئے پاکستان اب اس مسئلے سے نکل جائے تو بہتر ہے۔

انڈیا اور امریکہ کی یقیناً یہ خواہش ہوگی کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی نہ ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اگر اس طرف مصروف رہے گا تو انڈیا کے لئے بہت فائدہ مند ہوگااور پاکستان کے لئے دو بہت بڑے محاذ کھلے رہیں گے۔ افغان آسانی سے اس علاقہ کو اپنی دسترس میں رکھ سکیں گے۔ چین یہاں آسانی سے سی پیک سمیت دیگر پروجیکٹس پر آسانی سے توجہ نہ دے سکے گا۔

پاکستان کو اب فیصلہ کرلینا چاہیے کہ وہ افغانیوں کی سہولت چاہتا ہے یا پاکستانیوں کے لئے سکون، کیونکہ پاکستان نے اس سلسلے میں بہت قربانی دے لی جس کا انعام ملنے کی بجائے سزا ہی ملی ہے۔ اب افغانیوں کی باری ہے کہ وہ اپنے ملک میں جاکر اپنا ملک سنواریں۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -