ہرکہ خدمت کرد او مخدوم شد
تھوڑے عرصے میں لاہور اور چکوال کے بعد قومی اسمبلی کے حلقہ 154لودھراں میں خدمت کے توانا جذبے جیت گئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے غیر معروف اور وسائل سے محروم امیدوار اقبال شاہ صاحب نے دھن دولت اور گالی گلوچ کی سیاست کو شکست فاش سے دوچار کر کے امانت و دیانت اور شرافت کے مہذب چہرے سے روشناس کرایا ہے۔
27 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے میاں محمد شہباز شریف کے امیدوار نے بڑے بڑوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مذکورہ تمام کامیابیوں، بالخصوص لودھراں کی شاندار کامیابی میں کارفرما دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ حلقے کے عوام کی طرف سے ان خدمات کا اعتراف ہے، جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے میگا ترقیاتی منصوبوں کی صورت میں انجام دی ہیں۔
مزید سونے پر سہاگا یہ ہے کہ پنجاب بھر کے تمام منصوبوں کی تعمیر و تکمیل میں ایک دھیلے کی خیانت نہیں ہوئی ۔ الیکشن کے موقع پر سیاست دان عوام سے بڑے بڑے وعدے ضرور کرتے ہیں، لیکن خدمت اور محنت کے ہنر سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے منفی پروگراموں اور نعروں سے آگے نہیں بڑھتے۔
2013ء کے الیکشن سے پہلے وفاق اور سندھ میں بھی سیاست دانوں کی حکومتیں تھیں، ملک میں امن و امان کی صورت حال دگر گوں۔ بجلی کی شدید قلت اور سرمایہ کاری کا فقدان تھا۔ الیکشن کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف اقتدار میں آئے تو دن رات محنت اور رابطوں کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری آئی۔
بجلی کی پیداوار بڑھی، کارخانے چلنے لگے، لودھراں سمیت پنجاب بھر میں خوبصورت سڑکوں کا جال بچھا۔ ہسپتالوں کی حالت سدھری اور علاج معالجے کی سہولتوں میں اضافہ ہوا۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کے ہاتھ میں کلاشنکوف کی جگہ لیب ٹاپ دیا گیا۔ پنجا ب کا ہر آدمی جانتا ہے کہ میاں محمد شہباز شریف دن رات کام کرتے ہیں۔ رات کے کسی بھی حصے میں زیر تعمیر منصوبوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان خدمات جلیلہ کو دیکھ کر عوام بعض سیاست دانوں کی طعن و تشنیع اور خالی نعروں کو کوئی کو وزن نہیں دیتے اور نہ ہی ان پر اعتبار کرتے ہیں۔
پاکستان کا کاروباری طبقہ اور عوام دیکھ چکے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے خلاف سازشیں کرنے والے لیڈر بری طرح تضادات کا شکار ہیں۔
پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجتے ہیں، لیکن اسی پارلیمنٹ میں پہنچنے کے متمنی رہتے ہیں، پھر اسی پارلیمنٹ سے بھاری بھرکم اعزازیے وصول کرنے میں ایک دن کی تاخیر گوار ا نہیں کرتے۔
اسی لئے ایسے لیڈروں کی ناکامیوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لاہور کے حلقہ 120میں الیکشن ہوا، امیدوار محترمہ کلثوم نواز صاحبہ شدید بیمار ی کی وجہ سے ایک دن بھی حلقے میں نہ جا سکیں۔ میاں محمد نوازشریف، میاں محمد شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف سمیت کوئی بڑا لیڈر انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوا ۔
اکیلی مریم نواز صاحبہ نے انتخابی مہم چلائی، دوسری طرف بڑے پن کے زعم میں مبتلا سیاست دان دن رات حلقے میں جلسے کرتے اور جلوس نکالتے رہے۔ اپنی عادت کے مطابق شریف برادران پر گالی گلوچ اور نئے نئے الزامات کی بارش کرتے رہے۔ عوام نے ایسی بد زبانیوں کا کچھ اثر نہیں لیا۔
لندن کے ہسپتال میں پڑی محترمہ کلثوم نواز صاحبہ پر ووٹ نچھاور کئے اور شاندار کامیابی دلائی۔ اس کے بعد چکوال کے صوبائی حلقے میں الیکشن ہوا، جہاں رعونت بھرے لہجے میں سیاست دان ایک بار پھر دن رات الزام تراشیاں کرتے اور دل کو بہلاتے رہے۔
سب سنی ان سنی ہو گئیں، اور حلقے کے عوام نے میاں محمد شہباز شریف کی خدمات کی قدر کی اور ان کا امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا ۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 154 لودھراں کے عوام نے جس شان سے کارکردگی اور خدمات کا اعتراف کیا ،اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ مخالف امیدوار کو زعم تھا کہ اس کا اپنا گھر ہے، دھن دولت کے انبار ہیں، الیکشن کمیشن کی طرف سے روکنے کے باوجود پارٹی لیڈر انتخابی حلقے میں پہنچا اور جلسہ کیا۔
الیکشن قوانین کی دھجیاں بکھیر کر اپنی طاقت کی دھونس جمانے کی کوشش کی۔ عوام ایسی بہادری کو خاطر میں نہ لائے اور نہ ہی گالی گلوچ کی زبان کو کوئی وزن دیا۔ انہوں نے میاں محمد شہباز شریف کے ایسے سپاہی کو سرخرو کیا جو انتخابی مہم کی ضروریات سے محروم تھا۔
نہ تو دولت کی کثرت تھی اور نہ ہی گاڑیوں کا فلیٹ تھا۔ گاڑیوں کی چمک دمک کے سامنے اقبال شاہ صاحب مانگے تانگے کی چھوٹی کار پر ووٹروں سے رابط کرتے رہے۔
لاہور چکوال اور لودھراں کے الیکشنوں میں عوام نے کامیابی کا معیار سیٹ کر دیا ہے۔ اب کسی نہ تو کسی امپائر کی انگلی اٹھنے کا خوف کارگر ثابت ہوگا اور نہ ہی اسلام آباد کو لاک ڈاون کرنے کی سازش کامیاب ہوگی۔
نہ کنٹینر دھرنے کام آئیں گے اور نہ ہی بات بات پر مقدمے بازیاں شریف حکومت کی کامیابیوں کا راستہ روک سکیں گی۔ بڑی مدت بعد شریف برادران کی صورت میں عوام کو خدمت گزار قیادت ملی ہے۔
عوام خوش ہیں کہ ان کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ کاروباری طبقہ مطمئن ہے کہ انہیں بجلی ملنا شروع ہو گئی ہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔
حالات بتاتے ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی عوام موجودہ ٹیم کو ہی منتخب کریں گے، تاکہ فلاحی منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کا تسلسل برقرار رہے،ملک ترقی کرتا اور آگے بڑھتا رہے ۔