دہشت گردی کی واچ لِسٹ کا مسئلہ

دہشت گردی کی واچ لِسٹ کا مسئلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ جِس بنیاد پر امریکہ، پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کرنا چاہتا ہے، وہ بُنیاد ہم نے ختم کر دی ہے، اب کوئی ایسی تکنیکی وجہ نہیں ہے جس سے ہمیں واچ لسٹ میں ڈالا جا سکے۔ اُن کا کہنا تھا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں 37 ممالک ہوتے ہیں، پچیس تیس ممالک سے بات چیت جاری ہے۔ مفتاح اسماعیل نے جو اِس وقت جرمنی میں ہیں، جرمن حکّام کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر دفاع خرم دستگیر اور وزیر داخلہ احسن اقبال بھی اِس وقت مختلف ممالک میں ایسے ہی مشن پر ہیں۔ ایک نیوز چینل پر اُن کا کہنا تھا کہ جِس جِس ملک سے ہم نے بات کی ہے، ہمیں مثبت جواب مل رہا ہے، اُنہوں نے توقع ظاہر کی کہ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام نہیں ڈالا جائے گا۔ اِس سارے معاملے کے پیچھے بھارت ہے اور افسوس کی بات ہے کہ یہ ’’انڈیا سنٹرک‘‘ ہو گیا ہے اور ایک عالمی تنظیم ایک ملک کی سیاست اور سازش کی وجہ سے اِس قِسم کی بات کر رہی ہے، اگر ہمارے قوانین میں کوئی سَقم رہ گیا ہے تو ہم اُن سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ یہ زیادتی کی بات ہے کہ بھارت کے کہنے پر یہ ایک ادارے یا شخص کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ گروپ کی واچ لسٹ میں امریکی تحریک کے دفاع کے لئے جواب تیار کر لیا ہے اور اِس ضمن میں دُنیا سے تعاون کر رہا ہے، اگرچہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی اِس گروپ میں امریکہ کی حمایت کر رہے ہیں، تاہم اِن مُلکوں کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا گیا ہے اور ہم اپنا بھرپور دفاع بھی کریں گے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو اقدامات کئے ہیں اور اِس سلسلے میں جو قابلِ قدر جانی قربانیاں پیش کی ہیں، دُنیا اُن سے آگاہ ہے اور کِسی مُلک کو اِن قربانیوں کا حقیقی ادراک نہیں ہے تو پاکستان کو اِس کی تفصیل اُن مُلکوں کے سامنے رکھنی چاہئے اور اُنہیں بتانا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف جس انداز کی جنگ تنِ تنہا پاکستان نے لڑی ہے، دُنیا کے کِسی مُلک کو اِس تجربے سے نہیں گزرنا پڑا۔ طویل جنگ میں پاکستان نے جانی نقصان بھی اُٹھایا اور اس کی معیشت بھی تباہ ہوئی، پاکستان کو امریکہ نے اپنا ’’نان نیٹو اتحادی‘‘ قرار دیئے رکھا۔ اب بھی کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں بُہت سی رقوم امریکہ کے ذمے واجب الادا ہیں اور صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کی نئی پالیسی کی وجہ سے پاکستان پر جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے اُس کے ایک حصے کے طور پر یہ رقوم بھی رد کی گئی ہیں حالانکہ یہ نہ تو کوئی امداد ہے اور نہ ہی قرضہ، بلکہ یہ وہ رقوم ہیں جو دہشت گردی کی جنگ میں مختلف مداّت میں خرچ ہو چُکیں، اس کی ادائیگی پاکستان کا حق ہے لیکن عجیب ستم ظریفی ہے کہ امریکہ اِس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کی بجائے دباؤ ڈالنے کے لئے اب واچ لسٹ کے معاملے کو لے بیٹھا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے درست کہا ہے کہ وہ بنیاد تو ختم کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے فنی طور پرپاکستان کو واچ لسٹ میں رکھا جا سکتا ہے، اِس لئے اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ نئی قانون سازی کے بعد پاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، جن جن ملکوں سے سفارتی سطح پر روابط قائم کرکے اُنہیں پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا گیا ہے وہ اب اِس معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں۔ اِس سارے معاملے میں بھارت کا کردار بُہت ہی منفی ہے اور اُس نے امریکہ کے ساتھ اپنے تازہ تعلقات کا فائدہ اُٹھا کر اِس معاملے میں دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اِس وقت پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں جو خرابی موجود ہے اُس کا ذمہ دار بھارتی سیاست دان بھی مودی حکومت ہی کو قرار دے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سینئر بھارتی سیاست دان مانی شنکر آئر پاکستان آئے ہوئے تھے، یہاں اُنہوں نے کھُل کر خراب تعلقات کا ذمہ دار اپنے مُلک بھارت کو قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور بھارت بھی اپنے وطن کے ناطے اُنہیں عزیز ہے لیکن تنازعات کے حل کے ضمن میں پاکستان کا کردار قابلِ تعریف ہے۔ اِس صاف گوئی کی وجہ سے اُن کے خلاف ہندو انتہا پسندوں اور خود کانگرس کے اندر نکتہ چینی شروع ہو گئی ہے، تاہم وہ اپنے مُوقّف پر قائم ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار پوری دُنیا کے سامنے ہے، کِسی ملک نے اتنے لمبے عرصے تک دہشت گردی کا سامنا نہیں کیا، پاکستان میں اگرچہ دہشت گردی بڑی حد تک کم ہو گئی ہے تاہم آج بھی ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان جو خود دہشت گردی کا شکار ہے، کِسی طرح بھی اِس ضمن میں کِسی گروپ کی حمایت نہیں کر سکتا اور تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کی گئی ہیں، لیکن افغانستان کی جنگ تو اُسے خود ہی لڑنی پڑے گی۔ اگر افغان انتظامیہ دہشت گرد گروہوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے تو اِس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں، ابھی گزشتہ روز ہی پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اِس جانب توجہ دلائی کہ خطّے کے امن کی خاطر یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ ایسا امن خود پاکستان کے مفاد میں ہے، اِس لئے وہ تو اِس بات کا خواہاں ہے کہ وہاں حالات معمول پر آ جائیں لیکن امریکی افواج کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینا ظلم ہے اور اِس غصے کی وجہ سے واچ لسٹ میں ڈالنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اُمید ہے دُنیا پاکستان کا موقف سمجھ جائے گی اور اِس فیصلے سے باز رہے گی جس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی اُمید نہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -