گڈ بائے پاک امریکہ تعلقات !

امریکی سفیر نے روکھے لب و لہجے اور دو ٹو ک انداز میں کہا کہ ’’امریکہ (دہشتگردی میں مالی معاونت کے خاتمہ کو یقینی بنانے کے ایشو پر طے شدہ عالمی طریقہ کار کے مطابق پاکستان کو دستیاب مہلت کا ) مزید انتظار نہیں کرسکتا‘‘ ’’امریکہ پاکستان کو مزید مہلت نہیں دینا چاہتا ‘‘ ! امریکی سفیرنے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے جب یہ فقرے دفتر خارجہ میں سینئر ترین پاکستانی عہدیداروں کے سامنے ادا کئے تو درحقیقت بلی تھیلے سے باہر آگئی ، پاکستانی سفارتکاروں کیلئے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ یہ امریکی صدر ’’ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘ کے ہیپی نیو ائیر ٹو پاکستان ‘‘ ٹویٹ کا ہی پیش منظر ہے جبکہ اس کے پس منظر میں امریکہ کو ایک طرف تو افغانستان میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے جس کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا جارہاہے تودوسری جانب امریکہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ توقع کرتاہے کہ پاکستان انہیں غیر مشروط طورپر مذاکرات کرنے پر آمادہ کرئے !یہا ں یہ سوال بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ آیا امریکہ افغانستان سے نکلتا بھی چاہتاہے کہ نہیں ، کیونکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اب دہشتگردی کی جگہ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نبردآزما ہونا اولین ترجیح قراردیا جاچکاہے اس سے بھی اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس خطے کے کم و بیش تمام ممالک کا غیر رسمی متفقہ خیال ہے کہ امریکہ افغانستان میں رہ کر یہاں اس خطے کے تمام ممالک چین ، روس ،وسطی ایشیائی ممالک اور ایران و پاکستان کوجغرافیائی طور پر Engage کر سکتا ہے ، جبکہ چین کیخلاف امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے تو ایسے میں بھارت اور امریکہ دونوں اپنے اپنے مفادات کی خاطر حافظ سعید کا بہانہ بنا کر پاکستان کا بازو مروڑنا چاہ رہے ہیں ، اگرچہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267ء کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کو ادا کررہاہے اس قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل افراد کے اکاؤنٹس بین الاقوامی سفر اور اسلحہ اٹھانے یا خرید و فروخت پر پابندی کو یقینی بنانا ہوتاہے تاہم ان افراد کو ملک کے اندر نقل و حرکت ملکی قوانین کے تابع اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے ، جبکہ حال ہی میں اقوام متحدہ کے اس قرارداد کے حوالے سے ایک مانیٹرنگ گروپ نے پاکستان کا دورہ کیا اوراس ضمن میں اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ، اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مذکورہ قرار داد کے تحت حافظ سعید پر مطلوبہ پابندیاں لگائی جاچکی ہیں ، لیکن امریکہ حافظ سعید کی رہائی کو بہانہ بنا کر پاکستان کے گرد سیاسی بنیادو ں پر گھیرا تنگ کرنے کی تیاری کررہاہے ، حافظ سعید کو قید میں رکھنے کیلئے نہ تو اقوام متحدہ کی قرارداد میں کوئی پابندی ہے نہ ملکی قوانین کے تحت انہیں قید رکھا جاسکتاتھا ، تاہم اس حجت کے خاتمہ کیلئے بھی پاکستان نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نئے قوانین متعارف کروائے ہیں ، لیکن کیا یہ ایشو حافظ سعید تک محدود ہے یا پھر امریکہ اور مغرب کا بھارتی گٹھ جوڑ کے ساتھ اس کے پیچھے کوئی بڑا ایجنڈا ہے ؟ اس سوال کا جواب اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کیلئے مالی معاؤنت کے انسداد کیلئے قائم کردہ ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو امریکہ و برطانیہ کی جانب سے حال ہی میں ایک لکھے گئے خط میں تلاش کیا جاسکتاہے ، جس میں پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کرنے کیلئے کہا گیا ہے ، جبکہ جرمنی اور فرانس بھی امریکہ و برطانیہ کے ہم نوا بن چکے ہیں ۔
درحقیقت جی سیون ممالک نے انٹی منی لانڈرنگ کیلئے 1979ء میں ایک ادارہ قائم کیا تھا تاہم 9/11کے بعد انسداد مالی اعانت برائے دہشتگردی کو اس میں شامل کر دیا گیا ہے ، اس وقت پاکستان میں شعبہ مالیات کے ریگولیٹرز 9/11 کے بعد کی صورتحال کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے ، جس کی وجہ سے پاکستان کو 2013ء میں واچ لسٹ میں ڈالا گیا لیکن بعدازاں سٹیٹ بینک آف پاکستان ایس ای سی پی اور دیگر مالیاتی ریگولیٹرز کو زیادہ بااختیار اور باصلاحیت بنا دیا گیا ، جن کی بناء پر پاکستان کو 2015ء میں امریکہ اور بھارت کی مخالفت کے باوجود واچ لسٹ سے نکال تو دیا گیا لیکن ہر سال اس حوالے سے ایک رپورٹ جمع کروانے کی ایک اضافی ذمہ داری سونپی گئی ، پاکستان نے 2016ء اور2017ء میں یہ رپورٹس جمع کروائیں جبکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایشیاء پیسفک گروپ نے سفارش کی کہ چونکہ پاکستان نے 2018ء میں Mutual Evaluation کے عمل سے گزرنا ہے تو اس پر اضافی رپورٹ جمع کروانے کی قدغن ختم ہونی چاہئے ، امریکہ نے نہ صرف تجویذ کو مسترد کردیا بلکہ پاکستان نے جو اضافی رپورٹ ایشیاء پیسفک گروپ (APG)کو جمع کروانی تھی اور ابھی پاکستان APGنے اسے حتمی شکل دے کر آگے جمع کروانا تھی اسے خفیہ طورپر حاصل کرلیا جس کی بناء پر امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کیلئے خط لکھا یعنی امریکہ Mutual Evaluationکے تمام عمل کو بائی پاس کرنے پر سفارش کی ہے کیونکہ Mutual Evaluationکا عمل 2019میں مکمل ہونا تھا، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان اور ایشیاء پیسفک گروپ کا خیال تھا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کے تحفظات 2019ء میں اس عمل کے مکمل ہونے تک دور ہوجائیں گے بالخصوص جب پاکستان اس عمل کے مکمل ہونے کے قریب ہو تو اس سے قبل ہی امریکہ اور برطانیہ کی پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کی تجویز اسے دہشت گردی کے مالی معاونت کے انسداد کا پابند کرنے کی بجائے ان کے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نظر آتی ہے جبکہ پاکستان کو بعض ممالک نے امریکہ اور برطانیہ کی نیت سے پہلے سے ہی الرٹ کردیا تھا ، 18فروری کو پیرس میں 35رکنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اس ضمن میں حتمی فیصلہ کریگی ، اگرخدانخواستہ فیصلہ خلاف آیا تو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی لاگت 2سے 3فیصد بڑھ جانے کا امکان ہے ، امریکہ کھل کر سامنے آگیا ہے ، امریکہ کے دل میں جو عرصہ سے تھا صدر ٹرمپ اسے ٹویٹ کی شکل میں لاکر پاکستان کو سزا دینے پر تلے ہوئے نظر آرہے ہیں،کیا امریکہ اورپاکستان کے اس وقت متضاد مفادات کی بناء پر دیرینہ باہمی تعلقات کو گڈ بائے کہنے کاوقت آگیا ہے!
Ba