یہ واقعہ ہے کہ آدم خور شیر کی چلاکیاں اور چالباز یاں ،جرات اور عقل و فہم اس قدر غیر معمولی ہوتی ہے کہ عوام ،خصوصاًجُہلا کو اس کے دیو بھوت اور نجس روح ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔حالاں کہ وجہ صرف اتنی ہوتی ہے کہ جب آدم خور کی خوراک کا انحصار آدم کشی پر ہوجاتا ہے تو اسے اکثر انسان ہی سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ انسان کے عادات و خصائل کا بغور مشاہدہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔شیر ہزاروں جانوروں کو مار ڈالتا ہے،لیکن ان جانوروں کا کوئی بھی ہم قوم انتقام لینے کے لیے نہیں اٹھتا۔بر خلاف اس کے ایک انسان پر حملہ کرنے کے بعد اس کی ساری برادری اس کی دشمن ہوجاتی ہے اور شیر کا تعاقب کرکے اسے ہلاک کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔شیر اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ انسان کو ہلاک کرنے کے کیا نتائج ہوگے ۔یہی باتیں اس کو بے حد چالاک اور عیار بنا دیتی ہیں۔
آدم خور کی ایک ادنٰی چالاکی تو یہ ہے کہ وہ جس جنگل یا مقام پر انسان کو ہلاک کرتا ہے ،وہاں بجز نہایت ایک لمحہ بھی زائد نہیں رکتا اور پھر کئی کئی روز ہی نہیں بلکہ اکثر ہفتوں ادھر کا رخ نہیں کرتا۔اسی طرح وہ بزدل اور بہادر اور مسلح وغیر مسلح شخص میں بھی تمیز کرنے لگتا ہے۔یوں تو عام جانور بھی،جن کو انسانوں سے ذرا بھی واسطہ پڑتا ہے ،شکاری اور غیر شکاری انسان میں امتیاز کرنے لگتے ہیں ،لیکن آدم خور شیر میں یہ ملکہ خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوجاتا ہے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ڈوب سے دس میل دور ایک ندی کے کنارے کسی قدیم حویلی کے ٹوٹے پھوٹے کھنڈرات ہیں اور غالباًستر اسی سال سے غیر آباد ہونے کی وجہ سے اس کے اطراف وجوانب میں گھنا جنگل ہو گیا ہے۔کھنڈرات سے دوڈھائی سو گز کے فاصلے پر ہی پچاس ساٹھ فٹ نشیب میں یہ ندی شمالاًجنوباًگزرتی ہے،اس لیے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جس زمانے میں حویلی بنی ہوگی،اس زمانے میں یہ ندی حویلی کی دیوار کے نیچے سے بہتی ہوگی۔
ندی کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے تناور اور گنجان برگد،پیپل،مہوے،کتھے اور بیل کے درخت ہیں ۔جو درخت بالکل کنارے پر واقع ہیں ،ان کی شاخیں ندی کے اوپر پانی پر یہ سایہ فگن ہیں ۔یہ سلسلہ نجانے کیا تک چلا گیا ہے ۔میں اس ندی کے کنارے کنارے کھنڈر سے دس میل جنوب اور آٹھ میل شمال میں شکار کے لیے گیا ہوں اور دونوں جانب درختوں اور جنگلوں کی گنجانی کا یکساں نقشہ ہے۔
ندی کو پار کرنے کے لیے نہ تو کوئی پل ہے ،اور نہ کوئی کشتی۔پانی کی گہرائی کا اندازہ بھی اس لیے ممکن نہیں کہ دونوں کناروں پر گھنی اور بلند گھاس اور جھاڑیاں ہیں،جن کی وجہ سے کوئی ندی کے پانی تک نہیں جاتااور اگر جائے بھی تو ایسے گھنے جنگل کے درمیان ایک دہشت ناک ندی میں کون اترے! گھنے جنگل،کھنڈرات کے ماحول اور مستقل مسلط رہنے والے سکوت کی وجہ سے اس جگہ دل پر ایک خاص اثر طاری ہوجاتا ہے۔
میں کئی مرتبہ اس علاقے میں شکار کے لیے گیا ہوں ،لیکن کھنڈرات کے جنگل شروع ہوتے ہی طبیعت پر ایک بوجھ سا پیدا ہوجاتا ہے اور خواہ مخواہ رائفل سے فائر کرنے کو دل چاہنے لگتا ہے۔میرے ایک دوست نوشاہ صاحب ،جن کی کچھ جائیداد ڈوب میں ہے،دوبارمیرے ساتھ گئے اور ہر دفعہ وہ بھی ماحول کی اس دہشت وہیئت سے متاثر ہوئے ہیں۔ کھنڈر کے اطراف میں ڈوب کے علاوہ بارہ بارہ پندرہ پندرہ میل تک کوئی آبادی نہیں ہے۔نہ کوئی راستہ یا پگڈ نڈی ہی ادھر سے گزرتی ہے۔اسی وجہ سے یہاں اور زیادہ سناٹا اور ہیئبت طاری رہتی ہے۔
اس کھنڈر میں شیروں کا ایک جوڑا عرصے سے رہتا تھا۔میں نے ایک بار ان کو اس زمانے میں دیکھاتھا جبکہ شیرنی نے پانچ بچے دیے تھے اور پانچوں شیر خور تھے ۔ان بچوں کی وجہ سے میں نے شیرنی کی جان بخشی کی تھی ۔اس کے عرصے تک نہ بجھے ڈوب جانے کا موقع ملا ،نہ ان شیروں کے متعلق اطلاع ملی۔
ایک سال جبکہ مون سون کا آغاز ہوچکا تھا ،نوشاہ صاحب کو ڈوب جانے کی ضرورت پیش آئی او روہ مجھے بھی ساتھ لے جانے پر مصر ہوئے ۔دراصل مان سون کے دنوں میں شکار کا زمانہ نہیں ہوتا۔کیونکہ جنگل میں کیچڑ بھی ہوتی ہے۔سانپوں کی بھی کثرت ہوتی ہے اور ہر وقت بارش ہونے کا اندیشہ بھی موجود رہتاہے۔لیکن نوشاہ نے کچھ ایسا اصرار کیا کہ مجھے شکار کے لیے نہیں تو کم از کم ان کی ہمراہی کے لیے ڈوب کے سفر پر آمادہ ہونا پڑا ۔اور ایک صبح جبکہ آسمان صاف تھااور موسم خوشگوار۔۔۔ ہم لوگ تین بیل گاڑیوں میں سوار ہو کر سہ پہر کو عصر کی نماز سے قبل ڈوب جا پہنچے۔(جاری ہے )