جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی
چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک اپیل کی سماعت کے دوران گواہوں کی حیثیت پر ریمارکس دیئے اور یہ کہا ہے کہ وہ جھوٹے گواہوں کو سزائیں دیں گے۔ چیف جسٹس کے مطابق ان گواہوں(جھوٹے) کو خدا کا خوف بھی نہیںآتا۔ یہ ایک بہت ہی مستحسن اقدام ہو گا کہ جھوٹی گواہی دینے والوں کو نہ صرف جھوٹا ثابت کر دیا جائے، بلکہ ان کو سزا بھی دی جائے، کیونکہ ہمارے نظام قانون میں یہ وبا ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے بے گناہ سزا اور گناہ گار چھوٹ جاتے ہیں۔
یوں بھی شہادتوں پر ہی کسی مقدمہ کا دارو مدار ہوتا ہے اور جھوٹی شہادت کی بنیاد پر اصل مجرم بری ہو جاتے ہیں۔ہمیں اپنے اس دور میں (60سے 70) ایسے بے شمار مقدمات سے واسطہ پڑا جو جھوٹ کی بنا پر قائم ہوئے اور ان کا انجام مقدمات کرنے والوں کی توقعات کے برعکس ہوا۔ یہ ساٹھ کی دہائی تھی۔ ہم نے کئی سال تک کورٹ رپورٹنگ کی اور وہ ایسا وقت تھا جب ہم وکلاء میں گھلے ملے تھے اور پہچان ہی نہیں ہوتی تھی کہ جرنلسٹ ہیں یا وکیل، اس دور میں فوجداری میں بڑے بڑے وکلاء کی شہرت تھی۔
چودھری برکت علی سلیمی (مرحوم) بھی انہی وکلا میں شمار ہوتے تھے۔ وہ فوجداری مقدمات میں مہارت رکھتے اور ان کی جرح بہت مشہور تھی، حتیٰ کہ ایک بار تو ہائی کورٹ میں ان کے ایک مقدمہ قتل کی اپیل میں سماعت کے دور ان ٹرائیل کورٹ میں طویل جرح کے بارے میں ریمارکس بھی دیئے گئے تھے۔
قتل کے مقدمات میں ملوث ملزم ان سے رجوع کرتے اور عموماً وہ اپنے ان موکلین کو بری بھی کرا لیتے تھے۔ چودھری برکت علی سلیمی سے ایک بار ہم نے ان کی کامیابی کا راز دریافت کیا تو انہوں نے بتایا’’میں پولیس میں ملازمت کے بعد لاء کر کے وکالت میں آیا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ پولیس مقدمہ بناتے وقت گواہیاں کیسے بناتی ہے۔
چنانچہ عینی شاہدین کے ساتھ ہی میرا بڑا ہدف تفتیشی افسر اور برآمدگی کے گواہ ہوتے ہیں، یہ سو فیصد ایسے لوگ بنائے جاتے ہیں، جن کا برآمدگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لہٰذا یہ لوگ جرح میں پھنس جاتے ہیں‘‘ ان کا یہ بیان یا موقف کئی مقدمات میں درست ثابت ہوا کہ کئی مقدمات ایسے تھے جن میں فیصلہ برآمدگی ہی کے نکتہ پر ہوا کہ قتل کے کیس میں آلۂ قتل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اس کی برآمدگی پر بہت انحصار کرنا پڑتا ہے،اِس لئے سیانے تفتیشی افسر مدعی پارٹی کے پختہ کار لوگوں کو گواہ بناتے تھے۔
الحاج حبیب الرحمن ایک اچھے اور باعلم پولیس آفیسر تھے، وہ ایس ایس پی لاہور تھے تو ان سے کئی بار اس اہم مسئلے پر بات ہوتی تھی کہ ملزم بری کیوں ہو جاتے ہیں کہ پولیس عام طور پر یہ کہتی تھی کہ ہم تو جرم کرنے والوں کو پکڑتے ہیں،لیکن عدالتیں ضمانت لے لیتی ہیں، بری کر دیتی ہیں۔ الحاج حبیب الرحمن مرحوم نے ایک بار بڑی تفصیل سے بات کی۔ یہ ان دِنوں کا ذکر ہے جب جنرل موسیٰ گورنر تھے اور پولیس مقابلے ہو رہے تھے۔
انہی دِنوں محترم ایس ایس پی ایک بار ہم دو تین رپورٹروں کو تھانہ کاہنہ لے گئے جہاں ایک قتل ہوا اور ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر ہو رہی تھی، ان کو شکایت کا جائزہ لینے موقع پر جانا پڑا تو وہ ہمیں بھی ساتھ لے گئے۔ تھانے میں مدعی اور ملزم پارٹی کے حضرات الگ الگ بیٹھے ہوئے تھے۔ الحاج حبیب الرحمن نے پہلے مدعیوں کو بلایا اور پوچھا کہ ان کو کیا شکایت ہے۔انہوں نے بتایا کہ تھانیدار ان کی شکایت پر ایف آئی آر کا اندراج نہیں کر رہا، تھانیدار نے استفسار پر بتایا کہ مدعی چاہتے ہیں کہ مبینہ قاتل کے ساتھ ہی اس کے دو بھائیوں اور ایک چچا کو بھی ملزموں میں شامل کیا جائے، جبکہ درحقیقت قتل میں صرف ایک شخص ملوث ہے اور یہ اِس لئے کہا جا رہا ہے کہ جو پیروی کرنے والے ہیں وہ بھی ملزموں میں شامل ہو کر اندر جائیں۔
دوسری پارٹی کا موقف سنا گیا تو ان کی شکایت روائتی تھی کہ بے گناہ ہیں، پولیس پورے ٹبر اور بعض رشتہ داروں کو بھی اُٹھا کر لے آئی ہے، ہماری موجودگی میں ایس ایس پی یہ ہدایت کر کے آ گئے کہ درست مقدمہ درج کیا جائے، کسی گناہ گار کو باہر نہ رکھا جائے اور کسی بے گناہ کو شامل نہ کیا جائے۔
دفتر میں آ کر انہوں نے بتایا کہ یہ مشکل ہے، جب کسی زور آور کا مقدمہ آتا ہے تو کوئی گواہی دینے کے لئے خود کو پیش نہیں کرتا کہ وہ خوفزدہ ہوتا ہے اور جب کبھی کوئی قتل وغیرہ کا مقدمہ سامنے آئے تو مدعیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ملزموں کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملوث کیا جائے کہ پیروی مشکل ہو جائے۔ یوں پولیس کو جو گواہ ملتے ہیں وہ جھوٹے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے بہرحال پاؤں نہیں ہوتے اور پھر لوگ بری ہو جاتے ہیں۔
یہ تو وہ مسئلہ یا حقیقت ہے جو خود اعلیٰ پولیس افسر نے مثال دے کر بتائی۔
ہمیں تو یہ علم ہے کہ ہر تھانے کے پاس گواہوں کی ایک فہرست ہوتی ہے، جو بوقت ضرورت کئی کئی مقدمات میں شہادت دینے ہیں،اس کے لئے فوجداری مقدمات کا ریکارڈ دیکھا جائے تو بہت سے انکشافات ہوں گے۔ یوں یہ لعنت اب تک چل رہی ہے، حتیٰ کہ کرائے کے گواہ بھی مل جاتے ہیں جو کچہریوں میں موجود ہوتے ہیں،انہی میں وہ حضرات بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی کسی ایک جائیداد کی اصلی یا جعلی رجسٹری لئے پھرتے ہیں اور ضمانت بھی دیتے ہیں۔ یہ حضرات بھی بیک وقت کئی کئی ملزموں کی ضمانت بھر چکے ہوتے ہیں۔
یہ سلسلہ عام ہے، محترم چیف جسٹس نے درست نشاندہی کی اور ارادہ بھی ظاہر کر دیا ہے، اس کے باوجود اس پورے نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ جھوٹی گواہی کاہی سدِباب نہ ہو، بلکہ جھوٹے مقدمات سے بھی جان چھوٹے۔ ہم نے ابھی مختصر بات کی ہے، ورنہ کئی اہم ترین مقدمات کی رپورٹنگ کر چکے ہیں جن میں کئی معزز حضرات نے غلط بیانی کی، اِس لئے عدالت کے سامنے جو کیس آئے اُسے تو میرٹ پر ہی پرکھا جائے تاہم جو نظام ہے اسے تفصیلی غور کے بعد بدلنا ہو گا۔ آخر کار مغرب میں مجموعی طور پر حلفیہ گواہی کیوں درست ہوتی ہے؟