’’میرے سوہنے کپتان من جا,چھڈ دے ضد، مولانا فضل الرحمن کا حجم آرٹیکل 6 سے زیادہ ہے، اگر یہ آرٹیکل ان پر لگ گیا تو سب ۔ ۔ ۔‘‘ سینئر کالم نویس ایثاررانا نے خبردار کردیا

’’میرے سوہنے کپتان من جا,چھڈ دے ضد، مولانا فضل الرحمن کا حجم آرٹیکل 6 سے ...
’’میرے سوہنے کپتان من جا,چھڈ دے ضد، مولانا فضل الرحمن کا حجم آرٹیکل 6 سے زیادہ ہے، اگر یہ آرٹیکل ان پر لگ گیا تو سب ۔ ۔ ۔‘‘ سینئر کالم نویس ایثاررانا نے خبردار کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (کالم:ایثار رانا) میرے سوہنے کپتان من جا,چھڈ دے ضد، مولانا فضل الرحمن کا حجم آرٹیکل 6 سے زیادہ ہے۔ ان پر زکوۃ تو لاگو ہوسکتی ہے آرٹیکل 6نہیں، اور پھر اگر یہ آرٹیکل ان پر لگ گیا تو سب مارے جائیں گے۔ اس آرٹیکل کے حجام میں کوئی بھی زیر جامعہ

والا نہیں ملے گا۔ مجھے تو اپنے کپتان پر بے تحاشہ پیار آرہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ کہہ دھی نو تے سنا نوں نو رہے ہیں۔ بھیا آرٹیکل 6 لگانا کس نے ہے؟ آپ وزیراعظم ہیں آپ بتا رہے ہیں یا پوچھ رہے ہیں۔ بیشک اس ملک میں خالص کھری تے جمہوریت کا شرطیہ نواں پرنٹ چل رہاہے۔ بے شک فضل الرحمن کا کسی طاقت سے چھپ چھپ کر ملنا اور کن سن میں ڈیلیں شیلیں کرنا بری بات ہے۔ سناہے وہ تو ملاقات میں باقاعدہ کہتے رہے کہ ماہی میریا روندھ نہ ماریں میں دا لایا جند جان دا۔ لیکن ساری ڈیلیں اور سارے وعدے پورے ہونا ضروری بھی نہیں،اب کپتان بس اتنا بتا دیں کہ فضل الرحمن پہ مقدمہ درج کرنے سے انہیں کون روک رہا ہے۔ مانا ان کی کابینہ جنرل مشرف کی کابینہ کی فوٹو کاپی ہے۔

پر یہ ضروری تو نہیں کہ اب سابق مرد آہن کے ڈائیلاگ بھی نقل کرنے لگیں، وہ کہتے تھے میں ڈرنے ورنے والا نہیں۔ کپتان بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ڈرنے والے نہیں، اب میں کیا بتا?ں انہیں اس اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ چیک کر لیں محترمہ فردوس عاشق اعوان نے ماضی کا کوئی بیان تو خان صاحب سے Repeet نہیں کرادیا۔ سنتا سنگھ اپنے دوستوں کو ایک ہی میسچ دوبار بھیجتا تھا۔ اس کا دوست بنتا سنگھ نے وجہ پوچھی تو بولا یار ایک تمہارے لئے دوسرا اس لئے کہ تم نے کسی کو فارورڈ کرنا ہو تو۔ بنتا سنگھ سر پیٹتے ہوئے بولا یار تین واری بھیجا کر کسی نوں ڈیلیٹ وی کرنا پے جاندا اے۔ اب سمجھ آئی ہر حکمران کو پرانے حکمرانوں کے کارناموں کی تین کاپیاں رکھنی چاہئیں۔ ہم تو پچھلے بہتر سال سے یہی باندر کلا دیکھ رہے ہیں۔

میری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ قوم کی آس ابھی ٹوٹی نہیں۔ اس لئے تھوڑی ہمت کریں ایک آدھ کالے چور کو پھڑکا دیں۔ بے شک نیب کو فریز کردیں لیکن اپنی شوکر کے ساتھ ایک آدھ بائٹ یعنی چک ضرور وڈھ لیں ورنہ ان کا خوف آہستہ آہستہ مک چلا ہے۔

ہمیں تو پہلے ہی یقین تھا ہمارے شہر یار آفریدی بہت پینچی ہوئی چیز ہیں، لیکن انہوں نے جو چرس کے فوائد بیان کردیئے اس کے بعد تو ہم ان کی ذہانت کے بھی قائل ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ چرس انسان کی یادداشت مضبوط کرتی ہے۔ میری رائے ہے کہ فوری طور پر وزارت چرس تشکیل دی جائے جس کا آغاز جھولے لعل کے نعرے سے ہو اور اختتام بیڑے پار نعرہ مستانہ پر ختم ہو۔

ایک چرسی نے اپنی آنکھیں عطیہ کیں اور بولا ڈاکٹر صاحب جسے یہ آنکھیں لگائیں اسے بتا دیں اسے دو سگٹاں دے بعد کھل دیاں نے۔ ویسے میں بھی اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قوم کو چرس سے دور رکھا جائے، اس کی یادداشت مضبوط ہوگئی تو پھر سیاستدانوں کی کہہ مکرنیوں کو کوئی بھولے گا نہیں۔ کس نے کیا وعدے کئے کون کس کو کیا کہتا رہا ہے کون کیا دعوی کرتا رہا، اگر اس قوم کو یاد رہ جائے تو پھرگندہ دھندہ کرنے والوں کو لگ پتہ جائے۔ پھر ہر کہے پر گریبان پکڑا جائے گا۔ اگر دو سگٹوں کے بعد اس قوم کی آنکھیں کھل گئیں تو سوچئے آٹا چینی غائب کرکے خود ہی کمیشن کھانے خود ہی تحقیقاتی کمیشنوں کے سربراہ بن کے خود ہی ان رپورٹس کو کھوں کھاتے میں پھینکنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔

آنکھیں کھل گئیں تو وزیراعظم یہ کیسے کہہ سکیں گے کہ وہ آٹا چینی گھی مافیا کو نہیں چھوڑیں گے۔ ویسے وہ کہہ ٹھیک ہی رہے ہیں وہ کیوں چھوڑیں ان مافیاز کو۔ ان مافیاز کے سر پر تو بہتر سال سے طاقتور بالادست طبقہ حکمرانی کر رہا ہے۔ سنتا سنگھ گدھے پر منہ دوسری طرف کرکے بیٹھے جا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا سنتا سنگھ منہ دوسری طرف کیوں کر رکھا ہے۔ سنتا لاکھ بولا تاکہ کوئی پیچھے ٹکر نہ مار دے۔ صاحب بولے اور اگر کس نے آگے سے ٹکر مار دی تو۔ سنتا سنگھ بولا نہیں آگوں کھوتا آپ سنبھال لے گا۔ جوقوموں سسٹم کے گدھوں پر الٹا بیٹھی ہوں اور سمجھیں کہ آگے سے کھوتا خود سنبھال لے گا۔ ٹکر سے بچا لے گا ان کا حال ہم جیسا ہی ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف چا بے لاکھ تھپکیاں دے، بلہے بلہے کرے حقیقت یہ ہے کہ ہم ترقئی معاکوس کا شکار ہیں۔ ایک قدم آگے چلتے ہیں تو دو قوم پیچھے چلے جاتے ہیں۔

. نادار غریبوں اور مستحقین میں ہیلتھ کارڈ کی تقسیم اچھی بات ہے، لیکن خیال رکھنا ضروری ہے کہ کوٹھیوں، بنگلوں میں بیٹھے نادار اور مستحقین اس کا حشر بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام والا نہ کریں۔ اگر یہ پراجیکٹ کامیاب ہوگیا تو کم ازکم پنجاب میں ایک بڑا چھکا ہوگا۔ وزیراعلیٰ بزدار کو چاہئے کہ سچے کھبے تکنے کے بجائے خود میدان میں کودیں۔ ساڑھے تین کروڑ افراد کو اگر صحت کی بنیادی ضرورت مل گئی تو واقعی بریک تھرو ہوگا۔ ایک طرف اس ماڑی مخلوق کی ضرورت ہے کہ زخم جیسے بھی لگے ہیں ان پر اگر مرہم رکھ دیا جائے تو چلو انہیں سسکنے میں آسانی رہے گی ورنہ ہسپتالوں، فٹ پاتھوں پر لوگ مر تو جاتے ہیں۔

عثمان بزردار کے پاس گولڈن چانس ہے انہیں ایک ایسی گیند ملی ہے۔جس پر چھکا لگتا ہے چاہے وہ بیک فٹ پہ ہوں فرنٹ فٹ پہ کھیلیں۔ سنتا سنگھ بیماری سے کراہ رہا تھا۔ بنتا سنگھ بولا چل ڈاکٹر کے چلتے ہیں سنتا سنگھ بولا نہیں یار پھر کسی دن چلتے ہیں آج میری طبیعت خراب اے۔ یہ قوم سنتا سنگھ جیسی معصوم ہے ڈاکٹر کے نہیں جائے گی لیکن گڈ گورننس کا تقاضا ہے ڈاکٹر خود ان کے پاس چلا آئے۔برادرم فیاض چوہان نوٹ فرمالیں۔

.

نوٹ:یہ کالم نویس کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔