کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری: سپریم کورٹ، چیف الیکشن کمشنر ممبران آج طلب
اسلام آ باد (سٹاف رپورٹر،نیوزایجنسیاں) چیف جسٹس آف پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے تمام ارکان کو (آج) منگل کو طلب کر لیا ہے۔ پیر کوسینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ انشا اللہ میں اپنے دلائل مکمل کرلوں گا، انہوں نے عدالت میں کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز نے کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دیں، افسوسناک بات ہے ہماری بار کونسلز سیاسی جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہیں، تشویشناک بات ہے کہ سیاسی جماعتیں اور بار کونسلز اوپن بیلٹ کی مخالفت کر رہی ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پاکستان بار کونسل اور سندھ ہائیکورٹ بار نے ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، ان بارز نے ریفرنس پر رائے دینے کیخلاف بات نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز نے اپنی درخواستوں میں آئین کے مطابق فیصلے کا لکھا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بار کونسلز نے اپنی قراردادیں ججز کو بھی بھجوائیں، مقدمہ سننے والے ججز کو قراردادیں بھجوانا پروفیشنل رویہ نہیں ہے، واضح کرنا ہوگا بار کونسلز کا کام کہاں ختم اور عدالت کا کہاں سے شروع ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار کونسلز کو سب سے زیادہ خطرہ سینیٹ میں اوپن بیلٹ سے ہے، بار کونسلز ماضی میں آئین اور قانون کی بالادستی کا کردار ادا کرتی تھیں، بار کونسلز سے درخواست کروں گا کہ اپنے موقف پر نظرثانی کریں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بار کونسلز کا موقف آزادانہ ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی جماعتوں والا۔سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن اور اس کی پوری سکیم الیکشن کمیشن سے طلب کر لی۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ہم چیف الیکشن کمشنر سے سوالات کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن خفیہ ہو مگر شکایت پر اس کی جانچ پڑتال ہو سکے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ عام انتخابات سیکرٹ بیلٹ سے ہوتے ہیں لیکن کاؤنٹر فائلز ہوتی ہیں، جب تنازع ہوتا ہے تو کاؤنٹر فائلز لی جا سکتی ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کیا الیکشن رولز کے ان سیکشنز کے نیچے بھی سینیٹ الیکشن کی ووٹوں کی جانچ ہو سکتی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 218کے مطابق کرپٹ پریکٹس کو روکنے کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کہیں گے کہ سیکرٹ بیلٹ ہے اور ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکریسی آرٹیکل 226کا مینڈیٹ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کوئی قانون کم نہیں کر سکتا۔
سپریم کورٹ