سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، دوسری جے آئے ٹی کی تشکیل کیخلاف دائر درخواست پر روزانہ سماعت کا حکم

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، دوسری جے آئے ٹی کی تشکیل کیخلاف دائر درخواست پر روزانہ ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لاہور(نامہ نگارخصوصی)چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ مسٹر جسٹس محمد قاسم خان کی سربراہی میں قائم 7رکنی فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف دائردرخواست پرروزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دے دیاہے،عدالت 15مارچ سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرے گی،دوران سماعت فاضل بنچ نے مختلف نکات پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سمیت فریقین سے معاونت طلب کرلی اور ہدایت کہ آئندہ سماعت پر 1بجے کیس کی سماعت میں وکلاء پیش ہو کر اپنے دلائل دیں،عدالت نے وضاحت طلب نکات بارے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا چالان آنے اورفردجرم عائد ہونے کے بعد دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے؟ استغاثہ میں ساری کارروائی ہونے کے بعد کیا جے آئی ٹی بنائی جا سکتی ہے؟ کیا یہ جے آئی ٹی وزیراعلی اور کابینہ کی منظوری کے بعد بنائی گئی تھی؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد لمبا عرصہ گزرنے کے بعد کابینہ نے نئی جے آئی ٹی کی منظوری دی تھی کیا وہ قانونی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کر لیا، کیا وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے سپریم کورٹ میں دیئے گئے بیان کی تائید کرتا ہے؟ کیا وزیراعلی کی ایڈووکیٹ جنرل کو دی گئی ہدایات پنجاب حکومت کی تعریف پر پورا اتریں گی؟ اگر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا بیان ہی کالعدم ہو جائے تو کیا ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے آرڈر کو کالعدم کر سکتی ہے؟اور کیا وزیراعلی پنجاب کسی آئینی استثنی کا سہارا لینا پسند کریں گے یا ایڈووکیٹ جنرل کے بیان کی سپورٹ میں آئیں گے؟فرد جرم سے قبل جو چالان پیش کیا گیا اس کے نامکمل ہونے کی وجوہات کیا بیان کی گئی ہیں، چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ کیا یہ جے آئی ٹی حکومت کی ہدایت پر بنی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نئی جے آئی ٹی بنائی جائے،اگر وزیر اعلیٰ نے بغیر کابینہ کے فیصلے کے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایات دیں تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟قبل ازیں فاضل بنچ نے رضوان قادر اور خرم رفیق کی درخواستوں پر سماعت شروع کی توپنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ملک اختر جاوید جبکہ درخواست گزاروں کی طرف سے برہان معظم ملک اور اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹس پیش ہوئے،درخواست گزاروں کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کے پیش ہونے سے متعلق وضاحت طلب کی تھی، فاضل بنچ کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ملک اختر جاوید نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو کیس کی پیروی سے ہٹادیا گیا، وزیر اعلی کی منظوری کے بعد اب میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی پیروی کے لئے پیش ہوں گا، چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے عدالتی حکم کے مطابق رپورٹ اور بیان حلفی ریکارڈ پر لگا دیئے ہیں؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا جی سر! عدالتی حکم پر من و عن تعمیل کر دی گئی ہے، فاضل بنچ کے رکن مسٹر جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا آپ نے 2 دسمبر 2019ء کا عدالتی حکم پڑھا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیاکہ جس میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ نئی جے آئی ٹی بن رہی ہے،آیا اس سے پہلے کیا کسی مجاز اتھارٹی نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سپریم کورٹ میں نئی جے آئی ٹی بنانے کا بیان دیا تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل کو مجاز حکام سے ہدایات ملی تھیں؟ کیا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے از خود سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا؟ آپ ہمیں اس شخص کا نام بتا دیں جس نے ایڈووکیٹ جنرل کو نئی جے آئی ٹی بنانے کا بیان دینے کی ہدایت کی تھی، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ مصطفی ایمپیکس کیس کی روشنی میں ایڈووکیٹ جنرل نے بیان دیا تھا، مسٹر جسٹس ملک شہزاد احمد خانے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلیٰ بیان حلفی دینا پسند کریں گے یا آئین میں دیئے گئے تحفظ کا سہارا لینا پسند کریں گے، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے ہدایات لے لیتا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ کسی آئینی شق کا سہارا لینا چاہتے ہیں تو ہم اسے قانونی طور پر دیکھیں گے، آپ وزیراعلیٰ پنجاب کا بیان لے آئیں کہ وہ کسی آئینی شق کا سہارا لینا پسند کریں گے یا نہیں؟چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا آپ یہ بھی بتا دیں کہ کیا وزیراعلیٰ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش کئے گئے بیان حلفی کا سہارا لیں گے،ہم اس کوروزانہ کی بنیاد پر سنیں گے، جمعرات اور جمعہ کو اس کیس کو مکمل کر لیں گے، عدالت کی ان نکات پر معاونت کریں,ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اس کیس کو کل سے ہی سننا شروع کر دیں، ہم روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کرنا چاہ رہے ہیں، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے فاضل بنچ سے کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر لی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اظہر صاحب گرشتہ آرڈر شیٹ آپ کے موجود بیان کی نفی کر رہی ہے، درخواست گزار کے وکیل برہان معظم ملک نے عدالت کو بتایا کہ پہلی ایف آئی آر نمبر 510 پولیس کی مدعیت میں درج ہوئی، پولیس کی مدعیت میں ایک جے آئی ٹی بنائی گئی، سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی درخواست پر عدالتی حکم پر 696 نمبر ایف آئی آر درج ہوئی،اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ادارہ منہاج القرآن کے جواد حامد کی مدعیت میں درج مقدمہ میں بھی جے آئی ٹی بنائی گئی، سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی مدعیت میں مقدمہ درج ہونے کے بعد17 نومبر 2014ء میں جے آئی بنائی گئی تھی، جواد حامد کی مدعیت میں درج مقدمہ نمبر 696 میں 9 پولیس افسر، 9 سیاسی افراد، 2 نامعلوم اور دیگر افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، انسداد دہشت گردی عدالت مین نامکمل چالان پیش کئے گئے ہیں، فاضل بنچ نے مذکورہ بالا ہدایت کے ساتھ کیس کی مزید سماعت 15مارچ تک ملتو ی کردی۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے 3 جنوری 2019ء کو نئی جے آئی ٹی بنائی گئی، فوجداری اور انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت ایک وقوعہ کی تحقیقات کیلئے دوسری جے آئی ٹی نہیں بنائی جا سکتی، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 135 گواہوں میں سے 86 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ایک جوڈیشل کمیشن اور ایک جے آئی ٹی پہلے ہی تحقیقات کر چکے ہیں، فوجداری قوانین کے تحت فرد جرم عائد عائد ہونے کے بعد نئی تفتیش نہیں ہو سکتی، نئی جے آئی ٹی کی تحقیقات سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل تاخیر کا شکار ہو جائے گا،سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم نہیں دیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن غیرقانونی قرار دیا جائے اورسانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کو فوری طور پر کام کرنے سے بھی روکا جائے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن

مزید :

صفحہ اول -