عمرانی سیاست نہیں ، مذہبی چورن

گولڈ سمتھ خاندان نے پاکستان پر اپنے پنجے گاڑھنے کی منصوبہ بندی کئی برس قبل کی تھی ،لیکن تب ہمارے سادہ لوح عوام اس گہری سازش کو سمجھ نہ سکے ۔ اب آہستہ آہستہ یہ رازسب پر عیاں ہو رہا ہے۔ان کا داماد جب جیسے تیسے کرکے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس کی مسند تک پہنچا تو اس نے پاکستانی عوام کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھیلتے ہوئے سب سے پہلے مبینہ طور پر ایک خاتون کو طلاق دلوائی اور اس کے ساتھ عدت میں ہی نکاح کر ڈالا ۔ا س کے بعد اس نے مذہبی کارڈ کو استعمال کیااور 2018 کے الیکشن سے قبل بشری بی بی کے ہمراہ پاکپتن میں دربار حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒپر حاضری دی اور نوافل ادا کیے،جس میں عمران خان نے مزار کے سامنے دروازے پر فرش کو چوما۔یہاں سے ان کے مذہبی کارڈ کی ابتداء ہوئی ۔اس کے بعدعمران خان نے مدینہ منورہ کی سرزمین پر جوتے اتارکر یہ ظاہر کیا کہ وہ بہت بڑا عاشق رسول ہے (البتہ اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت کبھی بھی دے سکتا ہے)،حالانکہ اس کا ماضی سب کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے ،جس کا ایک ایک ورق پڑھ کر انسان شرمندگی کی تہوں میں گر جاتا ہے ۔
عمران خان اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ مذہبی کارڈ کھیلتے رہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان میں مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے اور اسی ووٹ بینک کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کیا گیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلے عمران خان نے رحمت للعالمین اتھارٹی بنائی ۔یہ اتھارٹی بناتے وقت عمران خان کے ساتھ جو لوگ بیٹھے تھے ،انھوں نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں بنا رہے ہیں تو عمران خان کا جواب تھا ’دیکھیں ایک مذہبی جماعت کے پاس کتنے لاکھوں کا ووٹ بینک ہے، ہم اس ووٹ بینک کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔
مذہب کارڈ کا استعمال عمران خان کی سیاست کے آخری دنوں میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دینے لگا تھا اور کرسیٔ اقتدار سے اترنے کے بعد تو عمران خان نے اپنے خلاف بیرونی سازش اور قوم پر بیرونی آقاؤں کی حکومت کا تذکرہ چھیڑ کر انھیں حقیقی آزادی کے لیے مارچ پر اُکسانا شروع کردیا۔ عمران خان تو اس مذہب کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے کبھی نہیں چوکتے لیکن ان کے حواری بھی انھیں اس اسلامی ٹچ کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ کنٹینر پر تقریر کے دوران قاسم سوری نے عمران خان کو اپنی تقریر میں اسلامی ٹچ دینے کا مشورہ دیا اور عمران خان نے بھی توقف کیے بغیر ان کے مشورے پر عمل کیا۔اس کا مقصد مذہبی چورن بیچ کر عوام کی نظر میں پھر سے معتبر اور نجات دہند ہ بننا تھا۔
2011کے بعد سےتحریکِ انصاف کو جو عروج حاصل ہوا اور اس کے نتیجے میں جو طبقہ خان صاحب کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں بطور ووٹر، سپورٹر یاالیکٹیبل کے شامل ہوا، اس کا واحد مقصد ملک میں ایک سماجی تبدیلی لانا تھا۔اس طبقے کے سامنے معاشرتی انصاف اور خوشحال پاکستان کا ایک سرسبز خواب رکھا گیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جب2018 میں اقتدار ملا تو معاشرتی تبدیلی کا انقلاب یک بیک مذہبی رنگ اختیار کرتا ہوا ریاستِ مدینہ کے سیاسی نعرے میں ڈھل گیا۔بشری بی بی نے عمران خان کےذہن میں یہ مذہبی سیاسی اختراع پیوست کر دی، جس کا کانسیپٹ اور آئیڈیا خود وزیراعظم کی کابینہ اور پارٹی کی اکثریت حتی کہ خان کے ووٹرز، سپورٹرزتک کے لیے واضح نہیں تھا۔نتیجہ یہی نکلا کہ ساڑھے تین سال تک اس آئیڈیا کے اردگرد ٹامک ٹوئیاں ماری جاتی رہیں حتی کہ نوبت یہاں تک آ گئی کہ اپنے بھی کہہ اٹھے کہ یہ وہ تعبیر تو نہیں جس کا خواب دیکھا تھا۔جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انھیں قانونی طور پر وزیر اعظم شپ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو انھوں نے اس وقت امر با المعروف کا نعرہ لگایا اور کہا کہ ہم حق کی طرف ہیں جبکہ دوسری طرف شیطان اور باطل ہے اور بالآخر یہ بحث مباحثہ اسلام اور کفر کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئی ۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’عدم اعتماد کے بعد ایک تحریک شروع ہوئی ،جس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے خاص طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی قرآنی آیت کے، جس کا مطلب نیکی کی تبلیغ اور برائی کو روکنا، اور ان کے لیے ہم برائی کا سٹینڈرڈ اور وہ اچھائی کا سٹینڈرڈ ہیں۔اس کا پرچار کیا گیا ۔مفتاح نے اس کی وضاحت دیتے ہوئِے کہا ’نہ صرف عمران خان نے بلکہ پی ٹی آئی والوں نے سیاست چمکانے کے لیے مذہب کا بے جا استعمال کیا اور اپنے جلسوں کا تھیم ہی امر بالمعروف رکھتے تھے اور جب میں نے اس کی نشاندہی کی تو پی ٹی آئی کے وزرا ءاور ان کے حمایتوں نےمیرے اوپر سیاسی حملے شروع کردیے۔عدم اعتماد کی سیاسی تحریک کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے دینی اور وطن پرستی کے جذبے کا تڑکا لگا کرمعرکۂ حق و باطل کے رنگ میں تبدیل کر دیا گیا ۔
تحریکِ انصاف کی سیاسی ساکھ اب ختم ہو چکی ہے ۔اسے اپنے وجود کی بقا کے لیے صرف مذہب کا ہی سہارا چاہیے ،کیونکہ یہ ایک ایسی پروڈکٹ ہے جس کے مارکیٹ میں ہر وقت گاہک موجود ہیں ۔پاکستان میں مذہب ترپ کا پتہ ہے ،پاکستانی سیاست کی یہ فطرت ہے کیونکہ اس کے علاوہ تو عوام کو اور کچھ تو پیشکش نہیں کرسکتے سوائے مذہب کے ۔پہلے تین چار سال ریاست مدینہ کی اصطلاح جاری رہی ہے ۔اس نعرے کی آڑ میں ریاست مدینہ تو نہ ملی بلکہ توشہ خانہ ،منی لانڈرنگ،کک بیکس اور القادر ٹرسٹ کی لوٹ مار ملی ہے ۔یاد رکھیں! گولڈ سمتھ کے داماد نے پاکیزہ نعرے کی آڑ میں اقتدار کی ہوس پوری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی خوب بے وقوف بنایا ہے ۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔