غلامی سے جڑے القابات پرائمری سطح سے شروع کر دئیے جاتے ہیں، انصاف کے ایوانوں کا رخ کریں وہاں بھی خوش آمدی الفاط کی بھر مار نظر آئے گی

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:82
سکول اور غلامی؛
چلتے چلتے نظام تعلیم کے صرف ایک پہلو پر آپ کی توجہ مبذول کراؤں گا۔
پہلے دن سے ہی سکول کے بچوں کو ہم آ داب غلامی سے روشناس ہی نہیں کراتے، پڑھاتے، سکھاتے بھی ہیں اور بچے بڑے ہو کر وہ سبق یاد ہی نہیں رکھتے بلکہ عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔آپ کا سوال ہو گا وہ کیسے؟
سنیں محترم؛”غلامی سے جڑے یہ القابات پرائمری سطح سے شروع کر دئیے جاتے ہیں جب درخواست لکھنی سکھائی اور بتائی جاتی ہے۔ آئیں ایک نظر ڈالیں ہم غلامی کے کیسے کیسے الفاظ دھراتے اور لکھتے ہیں۔ درخواست کی شروعات۔۔۔بخدمت جناب۔۔ صاحب۔ کے بعد۔۔۔ جناب عالیٰ۔۔۔آگے چلتے ہیں۔۔۔مؤدبانہ گذارش ہے۔۔۔ کہ بندہ۔۔۔ مہربانی فرما کر۔۔۔عین نوازش ہو گی۔۔۔ عرضے۔۔۔تابعدار/فرمان بردار شاگرد۔۔۔ پر ختم ہو تی ہے۔ جو سارے الفاظ غلام ذھن کے عکاس ہیں۔یہ 8 الفاظ تعلیم کے ابتدائی دنوں سے ہی ہمارے دماغ میں ڈال کر باآور کرایا جاتا ہے کہ تم غلام اور خوش آمدی لوگ ہو۔انگریزی زبان میں بھی تحریر کی جانی والی درخواست بھی کچھ ایسے ہی الفاظ لئے ہوتی ہے۔ دکھ کی بات ہے 75سال میں ہمارے ماہرین تعلیم نے اس پہلو پر کبھی توجہ ہی نہیں دی یا شاید یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ آزاد ممالک اپنی نسلوں کو محکومیت کے ایسے صیغوں سے روشناس ہی نہیں کراتے۔آزاد ملکوں کے دفتری لوگ، طالب علم درج ذیل قسم کی تحریر چھٹی کے لئے لکھتے ہیں؛
”جناب زیر دسخطی بیماری کی وجہ سے آج مورخہ۔۔۔ دفتر نہیں آ سکتا۔ آج کی رخصت دی جائے۔ نام وغیرہ۔“
دونوں تحریروں کا فرق واضح ہے۔ جب مجھے یہ نقطہ سمجھ آ گیا تو میں سرکاری نوکری میں چھٹی کے لئے ایسی ہی تحریر لکھتا رہا۔ آپ انصاف کے ایوانوں کا رخ کریں وہاں بھی ایسے خوش آمدی الفاط اور القابات کی بھر مار نظر آئے گی۔ دنیا میں سب سے زیادہ مراعات لینے والے جج نے کبھی زحمت نہیں کی کہ وہ ایسے الفاظ کے استعمال کی حوصلہ شکنی کریں مگر شاید وہ بھی ایسے القابات کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔لہٰذا کیوں ہمیں آزاد ہونے کا شعور دیں۔ کاش ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح اس ملک کی تعلیمی پالیسی کسی ڈاکٹر دلاور حسین، کسی زیڈ اے ہاشمی، کسی عمر حیات ملک، کسی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی یا تعلیمی میدان کے کسی قد آور شخص نے بنائی ہوتی نہ کہ کسی بیس اکیس گریڈ کے غلام بیوروکریٹ نے۔
47 سال بعد سکول میں؛
میں دسمبر2022ء کو ایک دھوپ والی صبح 47سال بعد اپنے سکول گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹاؤن گیا۔ اب یہ سکنڈری درجہ تک اپ گریڈ ہو چکا ہے۔ جڑانوالہ کے ارشاد تاڑر یہاں پر نسپل تھے۔ میں نے تعارف کرایا تو بڑی گرم جوشی سے ملے۔ مجھے سکول کا چکر لگوایا۔ میں اپنی پرانے کلاس رومز میں گیا۔ چشم زدن میں 47 سال پہلے کی کہانی دماغ کے کینوس میں ایسی گھومی جیسے کل کی بات ہو۔بچوں کو یونیفارم میں دیکھ کر اپنا کل یاد آ گیا۔ انسان کبھی بھی ماضی سے دور نہیں رہ سکتا۔سکول کی عمارت کی حالت اچھی نہ تھی اور نہ ہی صفائی کا انتظام۔ میرے دور میں یہ چمچماتی اور صاف ستھری بلڈنگ تھی۔ اس کے در و دیوار چمکتے تھے۔ اب گرد تھی، پینٹ اکھڑا تھا اور دیواروں سے سیمنٹ ادھڑ چکا تھا۔ بنگالیوں کی کنٹین بند پڑی تھی اور نئی کنٹین سکول کے مرکزی دروازے کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔ البتہ2 چیزیں نئی تھیں؛ ہاکی گراؤنڈ میں آسٹرو ٹرف اور سکول کے گرد اونچی چاردیواری۔سچی بات تو یہ ہے مجھے سکول کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔