آپ کے اندر پختہ، عزم و ارادہ موجود ہے جس کے ذریعے آپ پہاڑ کوریزہ ریزہ کر سکتے ہیں لیکن آپ کسی متعین کردہ کام یا ہدف کو آئندہ پر چھوڑ دیتے ہیں 

 آپ کے اندر پختہ، عزم و ارادہ موجود ہے جس کے ذریعے آپ پہاڑ کوریزہ ریزہ کر سکتے ...
 آپ کے اندر پختہ، عزم و ارادہ موجود ہے جس کے ذریعے آپ پہاڑ کوریزہ ریزہ کر سکتے ہیں لیکن آپ کسی متعین کردہ کام یا ہدف کو آئندہ پر چھوڑ دیتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:142
آپ ایک ایسی باصلاحیت، دانشمند اور فہیم شخصیت ہیں جو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہر کام انجام دے سکتے ہیں۔ آپ کے اندر ایک ایسا پختہ، عزم و ارادہ موجود ہے جس کے ذریعے آپ پہاڑ کوریزہ ریزہ کر سکتے ہیں لیکن جب آپ کسی متعین کردہ کام یا ہدف کو آیندہ پر چھوڑ دیتے ہیں تو پھر آپ کا یہ طرزعمل آپ کی ذات اور شخصیت پر شکوک و شبہات، عدم اعتماد اور سب سے بڑھ کر کام چوری اور تساہل پسندی کا اظہار ہوتا ہے۔ جب آپ اس قسم کا رویہ اپناتے ہیں تو پھر آپ اپنے موجود لمحے (حال) میں اپنی ذات اور شخصیت کی عدم صلاحیت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اپنی زندگی ”امید“، ”اور ”ممکن ہے“ کے حوالے کر دیتے ہیں۔
زندگی بسر کرنے کا ایک طریقہ ”سستی و کاہلی“
ذیل میں ایک ایسا فقرہ درج ہے جو آپ کواپنے موجودہ لمحات (حال) میں غیرفعال اور بے عمل کر دیتا ہے:
”میں انتظا رکروں گا اور حالات اجھی ہوجائیں گے۔“
کچھ لوگ اس فقرے کو اپنا طرززندگی بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کو اس ”کل“ تک ملتوی کردیتے ہیں جو کبھی بھی نہیں آتا۔
ایک دفعہ مارک نامی ایک شخص میرے پاس آیا اور اپنی ناکام اور ناخوشگوار شادی شدہ زندگی کے متعلق شکوہ وشکایت کرنے لگا۔ مارک کی عمر 55 سال کے لگ بھگ تھی اور اسے شادی کیے ہوئے 30 سال ہوچکے تھے۔ شادی کے بارے اس کی شکایات بہت عرصے سے موجود تھیں۔ اس نے ایک موقع پر کہا: ”ابتداء ہی سے ہماری شادی شدہ زندگی اچھی نہ تھی۔“ میں نے مارک سے پوچھا کہ وہ اس تمام عرصے یہ ناخوشگوار اور دکھی زندگی کیوں بسر کرتا رہا تو اس نے اعتراف کیا: ”مجھے امید تھی کہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔“ اسی امید کے عالم میں تقریباً 30 برس گزر چکے ہیں لیکن مارک اور ا س کی بیوی ابھی تک اسی ناخوشگوار اور پریشان کن شادی شدہ زندگی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔
مارک سے مزید بات چیت کے ذریعے معلوم ہوا کہ کم از کم گزشتہ ایک دہائی سے وہ ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے اس مرض کے متعلق کسی سے کبھی گفتگو اور مشورہ کیا ہے تو ا س نے نفی میں جواب دیا اور کہا:’’مجھے یقین تھا کہ میری صحت اچھی ہو جائے گی!“ ا س نے اپناسابقہ جملہ دہرایا۔
مارک اور اس کی شادی شدہ زندگی ”سستی و کاہلی“ کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس نے اپنے مسئلے سے صرف نظر کیا اور اس فقرے کے ذریعے اپنے اس احتراز کو جائز ثابت کیا: ”اگر میں صرف محض انتظار ہی کرتا تو شاید میرا مرض دورہو جاتا“ لیکن مارک کو معلوم ہو گیا کہ حالات خودبخود اچھے نہیں ہوتے، کسی کوشش اور جدوجہد کی غیرموجودگی میں حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ حالات تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن اچھے نہیں ہوتے۔ حالات (واقعات، لوگ، صورتحال) بذات خود اکیلے اچھے نہیں ہوتے۔ اگر آپ کی زندگی اچھی ہے تو اس سے مرا دیہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے حالات بہتر بنانے کے لیے تعمیری اور مثبت کوشش اور جدوجہد کی ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -