آئٹم سانگ ہٹ ہوگیا۔۔۔
اسلام آباد میں پارلیمینٹ ہاﺅس کے سامنے لانگ مارچ کے شرکاءسے ڈاکٹر طاہر القادری کا گزشتہ روز خطاب جاری تھا، اسی دوران خبر آئی کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم حکم جاری کر دیا، ڈاکٹر طاہر القادری نے اس عدالتی حکم سے لانگ مارچ کے شرکاءکو آگاہ کیا، طاہر القادری نے کہا کہ میں نے آدھا خطاب کیا تھا اور آدھا کام ہو گیا، باقی خطاب کل کروں گا، سپریم کورٹ نے یہ حکم رینٹل پار کیس میں جاری کیا، اس حکم کے اجراءکی ٹائمنگ کچھ ایسی ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ شائد یہ حکم ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کا شاخسانہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس عدالتی حکم کی اطلاع ملنے پر سپریم کورٹ کے حق میں نعرے بازی کرائی اور اپنے پیرو کاروں کو جشن منانے کی ہدائت کی۔ انہوں نے ایسا تاثر دیا کہ یہ سب کچھ ان کی تحر یک کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ عدالتی حکم سے تاثر کوئی سا بھی اخذ کیا جائے لیکن واقفان حال اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا حکم کسی لانگ مارچ کا ”حصہ “نہیں ہے۔ چیف جسٹس جمہوریت اور آئین کے حوالے سے نہ صرف متعدد مرتبہ اپنے ریمارکس کے ذریعے عدلیہ کا نقطہ نظر واضح کر چکے ہیں بلکہ5 جنوری کو لاہور بار کی تقریب میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ”اب صرف الیکشن کے ذریعے آنے والے ملک چلائیں گے، قوم انتشار پھیلانے والوں کی حمائت نہ کرے۔ ملک میں حکمرانی صرف منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے“گزشتہ روز بھی انتخابی اصلاحات کیس میں چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری واضح طور پر کہا کہ ملک میں کچھ بھی سرگرمیاں ہوں، انتخابات اپنے وقت پر اور آئین کے مطابق ہوں گے۔ چیف جسٹس کے ان دو بیانات یا ریمارکس کی موجودگی میں وزیر اعظم کی گرفتاری کے حکم کو لانگ مارچ سے جوڑنا نامناسب ہو گا۔
وزیر اعظم کی گرفتاری کے حکم کا پس منظر یہ ہے کہ رینٹل پاور پروجیکٹ کو ستمبر2009 ءمیں فیصل صالح حیات نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا، اس کیس میں ایک درخواست گزار خواجہ آصف بھی تھے، سپریم کورٹ نے مارچ2012 ءمیں رینٹل پاور پروجیکٹ کو کالعدم کر کے قومی خزانہ کی اس لوٹ مار میں شامل افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کا حکم دیا۔ ملزموں میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت16 اعلیٰ افسر اور شخصیات کو شامل تصور کیا گیا جو اس پراجیکٹ سے کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی وقت وابستہ تھے ۔ نیب کے جن تفتیشی افسروں نے اس بابت ریفرنس تیار کر کے چیئرمین نیب سے اسے متعلقہ عدالت میں دائر کرنے کی منظوری اور ملزموں کی گرفتاری کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کی، انہیں کسی نہ کسی طرح مقدمہ سے الگ کر دیا گیا۔ رینٹل پاور کیس کی سماعت وقتا فوقتا عدالت عظمیٰ میں ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ تفتیشی افسروں کو عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور ملزموں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں تو چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے عدالت میں موجود ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو ہدائت کی کہ ملزموں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے اور انکی گرفتاری کے لئے چیئرمین نیب کی منظوری کو یقینی بنایا جائے اور ملزموں کو بلا ہچکچاہٹ گرفتار کیا جائے، سپریم کورٹ کے حکم نامے میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر ملزموں کا ذکر نہیں ہے تا ہم اس بابت رپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے کہ جن ملزموں کے خلاف تفتیشی افسروں نے ریفرنس تیار کر کے منظوری کے لئے چیئرمین نیب کو بھیج رکھا ہے ان میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا نام بھی شامل ہے۔نیب آرڈیننس کے تحت ملزموں کی گرفتاری یا ریفرنس متعلقہ عدالت میں دائر کرنے سے قبل چیئرمین نیب سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔ چیئرمین نیب کی منظوری کے بغیر ملزم گرفتار نہیں کئے جا سکتے۔ عدالت عظمیٰ نے چیئرمین نیب سے اسی منظوری کے حصول کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے، جس کے بعد ہی وزیر اعظم یا دیگر ملزموں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس بابت 17 جنوری کو عدالت عظمیٰ میں رپورٹ پیش کی جانی ہے جس میں ابھی کئی گھنٹے باقی ہیں۔ اگر چیئرمین نیب ملزموں کی گرفتاری کی منظوری دے بھی دیں تو ملزموں بشمول وزیر اعظم کی پاس اپنی ضمانتیں کروانے کا حق موجود ہے۔ وہ اس بابت عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔اعلیٰ عدالتوں سے حفاظتی ضمانت منظور کروانے کی آپشن بھی موجود ہے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کا مطلب وزیر اعظم یا دیگر ملزموں کی فوری گرفتاری ہے۔ وزیر اعظم کی فوری گرفتاری خارج ازامکان ہے۔ ابھی ان کی گرفتاری کا مرحلہ آتے آتے شائد کئی دن ، ہفتے یا مہینے لگ جائیں۔
یہاں تک وزیر اعظم کے آئین کے آرٹیکل248 (1) کے تحت استثنا کی بات کی جا رہی ہے وہ اس مقدمے میں انہیں حاصل نہیں ہے۔ کسی جرم کی پاداش میں وزیر اعظم اور وزراءکو گرفتار کر کے ان کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ ” یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کیس“ میں اٹارنی جنرل نے یہی نکتہ عدالت عظمیٰ میں اٹھانے کی کوشش کی تھی جسے پذیرائی نہیں ملی اور یوسف رضا گیلانی کو تابرخاست عدالت قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اپنی گرفتاری کے بعد وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل ہو جائیں گے؟ آئینی طور پر تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ راجہ پرویز اشرف آئین کے آرٹیکل63 کے تحت اس وقت تک نا اہل نہیں ہو سکتے جب تک کہ انہیں مجاز عدالت مجرم قرار دے کر کم از کم دو سال قید کی سزا نہ سنا دے۔18 ویں آئینی ترمیم سے قبل بدعنوانی، اخلاقی پستی یا اختیارات کے ناجائز استعمال میں سزا یافتہ شخص اسمبلی کی رکنیت کے لئے نا اہل قرار پاتا تھا۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت اس سے متعلقہ آرٹیکل63(1) ایچ میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اب آرٹیکل63(1) ایچ میں اخلاقی پستی کے کسی مقدمہ میں کم از کم دو سال قید کی سزا پر ہی مجرم5 سال کے لئے نا اہل ہو سکتا ہے۔ یوں راجہ پرویز اشرف گرفتار بھی ہو جائیں تو وہ وزیر اعظم رہیں گے۔
یہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور وزیر اعظم کی گرفتاری سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم میں کوئی تعلق تلاش کرنے کا معاملہ ہے، اس حالے سے ” ٹائمنگ“ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ” جشن مسرت“ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی فلمساز اربوں روپے خرچ کر کے فلم بنائے۔ بڑے بڑے اداکاروں کو کروڑوں روپے معاوضہ ادا کرے اور فلم میں ایک آئٹم سانگ بھی شامل کرے ،جس کا فلم کی کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، پھر یہ آئٹم سانگ ہٹ ہو جائے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سیاسی فلم میں ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی حیثیت ایک آئٹم سانگ جیسی ہے جو ہٹ ہو گیا ہے۔
آئٹم سانگ