محترم وزیراعلیٰ پنجاب........
عزم و ہمت کی علامت ، جرا¿ت و جوانمردی کی آماجگاہ ، قومی غیرت و حمیت کی نشانی اور علم و ادب کی گہوارہ سر زمین پنجاب کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے ایوان اقتدار کی رونق وہ شخص ہے جو علم و ادب ، نظم و ضبط اور کاروبارِ زندگی کے رموزو اوقاف سے گہری دلچسپی رکھتا ہے ۔ وہ الجھی ہوئی سیاسی پہیلیوں کو بوجھنے کا ادراک ہی نہیں رکھتا بلکہ وہ سوجھی ، بوجھی پہیلیوں کو سلجھانے کے فن سے بھی بخوبی آشنا ہے ۔ سیاسی حریف اُس کی اس انگلی کو ہدف تنقیدبناتے ہیں جو انگلی مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے کڑے حالات کے جابر گھڑیال کے سامنے اٹھتے ہوئے بھی لغزش محسوس نہیں کرتی ۔ وہ علم نجوم سے نابلد ہونے کے باوجود سیاسی کہکشاﺅں سے ٹوٹنے والے ستاروں کو ان کے مقام پر لانے کے لئے ہمہ تن مستعد دکھائی دیتا ہے ۔ اہل قلم ، اہل علم ، شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں ، مذہبی سکالر وں اور محب وطن سیاستدانوں سے وہ بلا امتیاز محبت کرتا ہے ۔ وہ اپنی سیاسی پارٹی کے رفقائے کار اور کارکنوں کی قربانیوں سے کبھی بے خبر نہیں رہتا ۔ طویل جلا وطنی کے بعد جب وہ وطن واپس لوٹا تو اس کے لبوں پر حبیب جالب کا مصرعہ ”میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا“ ، کچھ اس ادا سے جاری ہوا کہ زبان زد ِ عام ہو گیا ۔ آمر وقت کے کالے قانون سے پھوٹنے والی بے نور صبح کے خلاف جس ادبی پیرائے میں میاں شہباز شریف نے صدائے احتجاج بلند کی اس کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔ حبیب جالب کی انقلابی سوچ کو بامِ عروج پر پہنچانے میں میاں شہباز شریف کا کردار لاثانی اہمیت کاحامل ہے اور ان کی ادب شناس طبےعت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آج ہر چہار جانب ان کی سیاسی ، علمی و ادبی فہم و فراست کے تذکرے سنائی دے رہے ہیں۔ ان کی علم دوست پالیسیوں کے کھلتے ہوئے شگوفے روش روش پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ راقم الحروف پنجاب کے غالباً21ویں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہے کہ انہوں نے جس طرح لاہور شہر کی خوبصورتی کےلئے غیر معمولی کردار ادا کرتے ہوئے زندہ دلان لاہور کے دل جیت لئے ہیں اسی طرح وہ ان دلوں کی دھڑکنوں کو بھی قرار دینے میں اپنا کردار ادا کریں جو دل اب دھڑکنے سے عاجز آچکے ہیں ۔ وہ دل سینوں اور وہ سینے منوں مٹی کے نیچے دفن ہو چکے ہیں ۔ ان میں ایک نام مولانا بہا الحق قاسمی مرحوم کا بھی ہے۔مولانا بہا الحق قاسمی اتحاد بےن المسلمےن کے داعی تھے تمام مسالک کے لوگ اُن کے پےچھے نماز پڑھنے مےں کوئی عار محسوس نہےں کرتے تھے۔تحرےکِ آزادی مےں انگرےز سامراج کے خلاف اُن کی جدوجہد نوشتہ¿ دےوار بن چکی ہے وہ کئی مرتبہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کی محبت مےں پابندِ سلاسل ہوئے ۔ جنرل اعظم کا مارشل لاءلگا تو انہےں شاہی قلعہ مےں قےد کر دےا گےااُن پر غےر معمولی جسمانی تشدد کےا گےا ۔ تےن ماہ تک اُن کے اہلِ خانہ کو خبر ہی نہ تھی کہ وہ زندہ بھی ہےں کہ نہےں۔مولانا بہاالحق قاسمی نے متعدد کتابےں تصنےف کےں جن مےں سے” تذکرہ اسلاف“ اےک اےسی تحقےقی کتاب ہے جس مےں قاسمی خاندان کی اےک ہزار سال پر مبنی خدمات رقم کی گئی ہےں۔ ” تذکرہ اسلاف“ مےں ملاں عبدالحکےم سےالکوٹی اورحضرت مجدد الف ثانیؒ کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ مولانا بہاالحق قاسمی مثالی بستی ماڈل ٹاﺅن کی مسجد کے وہ خطےب تھے جن کی اقتدا¿میں میاں محمد شریف مرحوم، اُن کے افرادخانہ اوردےگر رفقائے کار نماز ادا کرتے وقت خشوع و خضوع محسوس کرتے تھے۔ وہ کوئی روایتی مولوی نہیں تھے بلکہ زہد و ریاضت کی وجہ سے ایک ایسی روحانی شخصیت تھے کہ قرآن مجید کی قرا¿ت کرتے ہوئے ان کا سینہ محبت الٰہی کی آماجگاہ بن جاتا تھا۔ عاشقانِ رسول ﷺ ان کی صحبت میں بیٹھنے کے لئے ترستے تھے اور جوکوئی بھی ان کی مجلس کو پالیتا اس کی کایا پلٹ جاتی تھی ۔ قاسمی خاندان کے ساتھ میاں شہباز شریف کے بزرگوں کے گہرے مراسم رہے ہیں اور قاسمی خاندان نے ہمیشہ روحانی اور دنیاوی ہر دو معاملات میں شریف خاندان کی راہنمائی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑا ۔مولانا بہاءالحق قاسمی ، معروف کالم نگار ، شاعر ، ادیب اور لکھاری عطاءلحق قاسمی کے والد گرامی تھے ۔ افسوس کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔
خدا تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے ۔ (آمین )
اسی طرح 15اگست 1959 ءکو پھالیہ کی سرزمین پر معروف روحانی و سیاسی شخصیت پیر سید محمد یعقوب شاہ کے گھر پیدا ہونے والے پیر سید محمد بنیامین رضوی بھی پاکستان مسلم لیگ ” ن “ کا وہ اثاثہ تھے جنہوں نے شریف خاندان کی جلا وطنی کے دوران اُس وقت کی حکومت کی طرف سے پےش کردہ تمام پر کشش مراعات اور عہدوں کو نظر انداز کر تے ہوئے مرتے دم تک مسلم لیگ ” ن “ سے اپنی سیاسی وابستگیوں اور دلی محبتوں کی چادر کو داغدار نہیں ہونے دیا ۔ انہیں 24جون 2004ءکو جب شریف خاندان کو جلا وطن ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا زندہ دلوں کے شہر لاہور مےں دن دےہاڑے پنجاب ےونےورسٹی کے ہاسٹل کو جانے والی سڑک پر شہید کر دیا گیا ۔ پیر بنیا مین رضوی گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ 31اگست 1991ءکو جب ان کے والد پیر سید محمد یعقوب شاہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو ان کی جگہ وہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ 1992ءمیں انہیں مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا ۔ 1997ءمیں انہیں وزارت سوشل ویلفیئر ، ویمن ڈویلپمنٹ ، اینٹی کرپشن اور بیت المال کا قلمدان سونپا گیا ۔ 12اکتوبر 1999ءکے سانحہ کے بعد بڑے بڑے وفاداروں نے اپنی وفاداریاں بدل لیں مگر پیر بنیا مین رضوی کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ۔ وہ مرتے دم تک پاکستان مسلم لیگ ” ن “ کے نائب صدر رہے اور ایک لحظہ کے لئے بھی انہوں نے پرویز مشرف کے آمرانہ دورِ اقتدار میں اپنے مو¿قف اور اپنی محبت سے پیچھے نہ ہٹنے کا علم بلند کئے رکھااور اپنی جان دے کر یہ تاریخ رقم کر دی کہ پاکستان مسلم لیگ ” ن “ سے محبت کرنے والے موت سے نہیں ڈرا کرتے ۔وائے افسوس کہ آج تک اُس مردِ مجاہد کے قاتلوں کا سراغ نہےں مل سکا۔ایک تیسرا نام جو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ احمد ندیم قاسمی کا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا وہ اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ۔ احمد ندیم قاسمی ضلع خوشاب کے نواحی گاﺅںانگہ میں 20نومبر 1916ءکو پیدا ہوئے ۔ 1920میں انگہ کی مسجد میں پہلی مرتبہ قرآن مجید کا درس لیا۔ 1936ءمیں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں 20روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی ۔ 1939ءمیں محکمہ آبپاشی میں ملازم ہوئے ۔ 1942ءمیں استعفیٰ دیا اور قلمی مزدور کی حیثیت سے تلاش رزق میں نکل کھڑے ہوئے ۔ احمد ندیم قاسمی نے 50سے زائد کتب تصنیف کیں ۔ انہیں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ”آدم جی ایوارڈ“ اور” پرائیڈ آف پرفارمنس“ جیسے حکومت ِ پاکستان کے اعلیٰ سول اعزاز ات سے نوازا گیا ۔
10جولائی 2006ءکو وہ تنگئی تنفس کی وجہ سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اس خالق ِ حقیقی سے جا ملے جو رب العالمین ہے ۔ ان کی وفات پر دنیا بھر کے اخبارات و جرائد نے ان کی علمی ،ادبی اور صحافتی خدمات کو شہ سرخیوں میں شائع کیا ۔ ان کی وفات سے گویا ادب کی دنیا کا ایک جلتا ہوا چراغ اہلِ زمین کو زیر زمین دفن کرنا پڑا ۔ میری نوکِ قلم یہ رقم کرنے کو مچل رہی ہے کہ ”دلکش لاہور کمیٹی “ جہاں قومی ہیروز اور دےگر علمی ، ادبی، سےاسی و سماجی شخصےات کے نام پر سڑکوں، چوراہوں ، انڈرپاسز اور فلائی اوورز وغےرہ کے نام رکھنے کے لئے ہمہ وقت بے چین رہتی ہے وہاں اسے ایسے نامور ہیروزاور شخصےات کوکےوں نظر انداز کر دےا گےاہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو مر کر بھی زندہ ہیں اور وہ اس بات کے حقدار ہیں کہ ان کے ناموں کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے ۔ میری وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے استدعا ہے کہ وہ ”دلکش لاہور کمیٹی “کو یہ حکم صادر فرمائیں کہ وہ” اشفاق احمد انڈر پاس“ سے لے کر ماڈل ٹاﺅن پارک تک جانے والی سڑک کا نام مولانا بہاءالحق قاسمی روڈ رکھے اوردوسرے گول چکر(سمن آباد) سے لے کر سمن آباد موڑ تک (مین روڈ سمن آباد) ےا چوبرجی سے لے کرحماےت اسلام چوک (ےتیم خانہ چوک) تک جانے والی سڑک کا نام احمد ندےم قاسمی روڈ کے نام پر رکھا جائے اور جواد اکرم شہےد چوک(گارڈن ٹاﺅن) سے لے کر بھےکے وال موڑ تک جانے والی سڑک جہاں پر پیر بنیا مین رضوی نے جام شہادت نوش کیا اس سڑک کا نام پیر بنیا مین کے نام سے موسوم کیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں ماضی کے قومی ہیروز، علمی ، ادبی ، سےاسی و سماجی شخصےات کو فراموش نہ کر سکیں ۔مجھے قوی ےقےن ہے کہ مذکورہ نامور شخصےات کے نام پر سڑکوں کے نام رکھے جانے کی مےری اِن تجاوےز پر ضرور کارروائی عمل میں لائے جائے گی۔
شاےد کہ اُتر جائے تےرے دل مےں مےری بات