ملا عمر کے خلاف بغاوت؟
بھارت یاترا کے بعد پاکستان آتے ہی امریکی وزیر خارجہ نے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ جان کیری کا دورہ نئی دہلی بھارتی نقطہ نظر سے پوری طرح کامیاب رہا۔امریکی وزیر خارجہ نے اپنے ہدایت نامہ میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ امر یقینی بنانا ہو گا کہ انتہا پسند کہیں بھی اپنے پاﺅں نہ جما سکیں۔انہوں نے حقانی نیٹ ورک کو بھی پوری دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا۔
جان کیری نے راولپنڈی جا کر جی ایچ کیو کا دورہ کرنے کی ”سعادت“بھی حاصل کی ۔جہاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے زور دیا کہ امریکہ افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرائے۔ادھر امریکہ نے مولوی فضل اللہ کو عالمی دہشت گرد قرار دیدیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے 5ملزموں کو افغانستان میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ افغان حکام تفتیش کے بعد ان ملزموں کو پاکستان کے حوالے کردیں گے۔دوسری طرف یہ خبر بھی سامنے آرہی ہے کہ کابل میں والی بال میچ کے دوران خونریز حملہ کرنے والے اہم ملزم کو پاکستانی حکام نے اپنے علاقے سے حراست میں لے لیا ہے۔اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاک افغان حکام قیدیوں کی ادلی بدلی کریں گے یا غیرمشروط طور پر ایک دوسرے کے حوالے کیا جائے گا۔آرمی پبلک سکول پر حملے کے ملزموں کے خلاف کارروائی کے لئے ڈی جی آئی ایس آئی نے مختصر وقت میں دوسری بار کابل کا دورہ کیا ہے، جہاں یہ تاثر موجود ہے کہ افغان صدر اشرف غنی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہر حوالے سے اہمیت دے رہے ہیں،وہیںیہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ افغان آرمی ،انٹیلی جنس اور شمالی اتحاد کے اکابرین سمیت سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ اس سلسلے میں مخلص نہیں۔ دیکھنا ہو گاکہ سانحہ پشاور کے ملزموں کو کب اور کیسے پاکستان کے حوالے کیا جاتا ہے۔پاک افغان حکام کے درمیان بد اعتمادی کی پوری تاریخ موجود ہے۔تحویل مجرمان کا عمل مکمل ہو بھی جائے تو یہ سوالات ضرور اٹھیں گے کہ جن افراد کو پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے کیا وہ اب افغان حکام کے نزدیک کارآمد نہیں رہے یا پھر واقعی مستقل قیام امن کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ علاقائی سیاست کے حوالے سے بھی بعض نئے رجحانات سامنے آئے تھے۔ پاک فوج کے سربراہ نے ایک موقع پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ شدت پسند تنظیم داعش کو پاکستان اور افغانستان میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اس بیان ہی سے واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ نے پاک فوج کا افغانستان میں بھی ایک کردار رکھا ہے۔یقینی طور پر یہ کردار علاقے سے امریکی انخلاءکے بعد مستقل قیام امن کے حوالے سے تھا۔صدر اشرف غنی اس تناظر میں توقع کررہے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغان طالبان سے ان کے معاملات طے کرانے میں نہایت کلیدی کردار ادا کرے گی۔خود امریکہ نے بھی ملاعمر کو نشانہ نہ بنانے کا اعلان کر کے یہ عندیہ ظاہر کیا کہ افغانستان کی سیاست میں طالبان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس سے قبل کہ اس حوالے سے مزید کوئی پیشرفت ہوتی سانحہ پشاور رونما ہو گیا۔اگرچہ افغان طالبان نے کھل کر اس واقعہ کی شدید مذمت کی، لیکن سچ یہی ہے کہ سارا منصوبہ افغان سرزمین کے اس حصے میں بنا جہاں حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔یہ بھی تسلیم شدہ امر ہے کہ ملاعمر کے پیرو کار افغان طالبان پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کے تشدد کے سخت خلاف ہیں۔ افغان کابینہ کی تشکیل کے وقت صدر اشرف غنی نے طالبان سے بھی رابطہ کیا۔طالبان نے حکومت میں شامل ہونے کی دعوت یکسر مسترد کردی۔کیا افغانستان میں طالبان کو شامل کئے، بغیر مستحکم حکومت قائم ہو سکتی ہے؟اس کا جواب نہیں میں ہے، لیکن اب اس سے بھی بڑا سوال کھڑا ہو گیا ہے ،وہ یہ کہ کیا پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ملاعمر کو افغان طالبان پر پہلے جیسا مکمل کنٹرول حاصل ہے؟
اس حوالے سے تازہ ترین صورت حال ہر لحاظ سے تشویشناک ہے۔افغانستان کے اندر طالبان کے حملوں میں تیزی آگئی ہے۔پاک افغان تعلقات میں ڈرامائی بہتری کے باوجود صدر اشرف غنی کے ناقدین اب یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا پاکستان اتنا اثرورسوخ رکھتا ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئے؟اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بہت سے طالبان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے خفیہ اداروں پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔شمالی اتحاد والے بھی اشرف غنی پر دباﺅ بڑھا رہے ہیں ۔ایک موقع پر چین نے بھی افغان حکام اور طالبان کے درمیان معاملات طے کرانے کی کوشش کی تھی، مگر کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔افغان طالبان کے حوالے سے صورت حال مزید گمبھیر ہوتی نظر آرہی ہے۔ملاعمر کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں نے داعش کے جھنڈے اٹھا لئے ہیں۔ہلمند کے سابق طالبان کمانڈر ملا عبدالرﺅف نے ابوبکر بغدادی کی اطاعت کا اعلان کر دیا ہے۔ علاقے میں طالبان کے پرچم اتار کر داعش کے جھنڈے لہرا ئے جا رہے ہیں۔داعش میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی طالبان سے لڑائیاں بھی شروع ہو چکی ہیں،جن میںہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔افغان فوجی حکام کے علاوہ مقامی صوبے کے گورنر نے بھی داعش کی سرگرمیوں اور بھرتیوں کی تصدیق کردی ہے۔صوبہ نمروز کے گورنر امیر محمد نے ایک ہی فقرے میں ساری صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے ”وہ ایک ہی لوگ ہیں‘ پہلے وہ القاعدہ کے پرچم تلے لڑے، پھر بطور طالبان اور اب داعش۔ وہ وہی لوگ ہیں‘ ان کا پروگرام ایک ہی ہے“۔ داعش کی اطاعت کے حوالے سے جاری ہونے والی ویڈیو میں چند پاکستانی افغان طالبان کے ساتھ کئی افغان کمانڈروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حالات اس موڑ پر آ چکے ہیں کہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ طالبان قیادت کو گزشتہ کئی سال میں پہلا حقیقی چیلنج درپیش ہے، افغان کمانڈر خود اعتراف کر رہے ہیں کہ اگر داعش افغانستان میں قدم جما لیتی ہے تو جنگ کی نوعیت بدل جائے گی۔ داعش کی دہشت کی عکاسی جنگجو افغان قوم کے اکابرین کی اس رائے سے کھل کر ظاہر ہو جاتی ہے ”ہم نے روسیوں کو آتے جاتے دیکھا، برطانوی اور امریکی فوجیوں کو بھی، لیکن ہماری خواہش ہے کہ داعش یہاں نہ آئے۔ افغانستان میں استحکام خطے کے استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔ تمام سٹیک ہولڈروں نے مل جل کر عملی کوششیں نہ کیں تو سب دھرا رہ جائے گا۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
مَیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا