کیا زرداری ،بھٹو بن پائے گا؟

کیا زرداری ،بھٹو بن پائے گا؟
کیا زرداری ،بھٹو بن پائے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ بھی ایک وقت تھا، جب پیپلزپارٹی جہاں چاہتی ہزاروں کیا لاکھوں لوگ بھی باآسانی جمع کرلیتی تھی، جس کی وجہ عوام کی خدمت نہیں بلکہ بھٹو خاندان سے جیالوں کی دیوانہ وار محبت تھی۔
بھٹو کے نام پر بننے والی پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کے جانے کے بعد کسی حد تک دھچکا ضرور لگا مگر اس کی بیٹی نے اپنی محنت سے نا صرف پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا بلکہ ایک بار پھر مضبوط سے مضبوط بنایا۔ لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا، کہ جس بیٹی کے کاندھوں پر پوری پارٹی کا وزن تھا اس کو دہشتگردوں نے نشانہ بناڈالا، اور اگر یہ کہا جائے کہ دہشتگردوں نے محض بے نظیر بھٹو کو نشانہ نہیں بلکہ پوری پارٹی کو نشانہ بنایا ہے تو یہ ہر گز غلط نہ ہوگا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھلا ایسا کیوں ہوا؟ تو ایسا اس لیے ہوا کہ بینظیر کی دنیا سے رخصتی کے بعد یہ امید تھی کہ پارٹی کے کسی سینئرممبر کو پارٹی کی بھاگ دوڑ کی ذمہ داری دی جائے گی مگر بادشاہت پر مبنی جماعتوں میں ایسا کہا ںہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی قیادت کا قرعہ نکلا آصف علی ذرداری اور ان بیٹے بلاول زرداری کے نام جن کے ساتھ بھٹو بھی لگایا جاتا ہے۔

اگرچہ 2008 کے انتخابات نے محترمہ کے المناک حادثے کے بعد عوام نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچایا مگر ایوان میں پہنچنے کے بعد یہ عوامی جماعت عوام سے بالکل اِس طرح دور ہوئی کہ جس طرح بلی کو دیکھ کر چوہا دور بھاگ جاتا ہے۔ اِس نااہلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس پارٹی کو ملک بھر کی پارٹی کہا جاتا تھا وہ سمٹ کر محض ایک صوبے کی پارٹی بن گئی۔
سندھ کے علاوہ باقی چا رصوبوں میں اس پارٹی کیلئے کونسلر منتخب کروانا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے،اس کے ووٹ بینک کی وقعت یہ رہ گئی ہے کہ 2013ءکے عام انتخابات میں دو سابق وزرائے اعظم حصہ ہی نہ لے سکے یا پھر جیت ہی نہ پائے،متعدد وفاقی وزراءاپنے اپنے حلقوں میں ہارگئے،عوام نے عوامی پارٹی کو ایسا آئینہ دکھایا ہے کہ اب منہ چھپاتی پھر رہی ہے،اس ساری صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایاجس نے صرف ووٹرز ہی نہیں بلکہ اس کے لیڈرز کو بھی توڑا ہے،ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو دھکیل کرعوامی مقبولیت میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے،اب تو اس کا سب بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کا اعزاز بھی ن لیگ کے رحم و کرم پر ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں بہت سارے اندازے لگانے کی کوشش کی گئی کہ شاید پیپلز پارٹی اپنے اصل کردار کی جانب لوٹ آئے گی،حکومت کو ٹف ٹائم دے کر آئندہ انتخابات کیلئے کوئی عوامی بیداری کا کام کرے گی ہوا یہ کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو عوام کی طرف سے وہ رسپانس نہیں ملا جس کی وہ توقع کررہی تھی،ان کی قیادت نے لاہور میں پرانی بوتل پر نیا لیبل لگا کربیچنے کی کوشش کی ،گانے،بجانے کا بھی سہارا لیا،مخالفین پر تلخ اور کڑوی زبان کا مصالحہ لگاکر وار کرنے کی کوشش بھی کی گئی جو رائیگاں گئی،حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے غبارے سے ہوا بھرنے سے پہلے ہی نکل گئی ،باپ بیٹے نے ضمنی انتخابات جیت کر اسمبلی میں آنے کا اعلان کرکے ہی جان بچانے میں عافیت سمجھی ہے۔
پیپلز پارٹی کے حالیہ انٹراپارٹی انتخابات کو بندربانٹ کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا،آصف علی زرداری نے ان افراد کو عہدے دیے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وگرنہ اعتزاز احسن سمیت بڑے بڑے نام نااہل یا جاہل ہیں کہ ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا،جب جماعتوں میں خوشامدی گھس آتے ہیں ان کو دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی اپنے ہی ماردیتے ہیں۔
زرداری صاحب تو سب پر بھاری ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جلسوں سے الیکشن نہیں جیتے جاتے تو پھر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کیوں؟ جس بات پر خود پارٹی رہنماءنالاں ہیں کہ آپ پارلیمنٹ نہ آﺅ،بلاول کو آنے دو ،کھل کر کھیلنے دو ،جب سب منع کررہے ہیں توپھر زرداری صاحب کیو ں ضد کررہے ہیں؟ان کی اس کیوں کے پیچھے شاید بلاول کی زرداری سے بھٹو بننے میں ناکامی ہے،شاید وہ سمجھ گئے ہیں کہ مقابلے میں کھلاڑی بڑے ہیں اکیلی یہ ننھی جان کچھ نہیں کرپائے گی،پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ کیا زرداری کا بیٹا بھٹو بن پائے گا؟تو فی الحال جواب ناں کے سوا سجھائی نہیں دیتا،وہ ذو الفقار بھٹو تھا جس کی قائدانہ صلاحیتوں کا زمانہ معترف ہے،جو بولتا تو سننے والے ساکت ہوجاتے،جو گرجتا تو مخالفین تھر تھر کانپتے تھے،جس نے عوام سے محبت مانگی تو محبت ملی،جان مانگی تو جان ملی،ووٹ مانگا تو پورے پاکستان میں کامیاب ٹھہرا۔خود نہ رہا تو بیٹی نے وہ کردکھایا جو باپ ادھورا چھوڑ گیا،نواسے میں وہ بات دکھائی نہیں دیتی جو بیٹی میں تھی،یہ تو اس شخص کا خون ہےجسے ذوالفقار بھٹو خود اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -