اصل مسئلہ حرص و طمع ہے

اصل مسئلہ حرص و طمع ہے
اصل مسئلہ حرص و طمع ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آئیے آج کچھ چیزوں کو دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ہر بات کا نزلہ حکمرانوں پر گرانے کی بجائے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ باقی لوگ کیا کر رہے ہیں؟۔ یہ خیال مجھے اس لئے آیا کہ جناح ہسپتال لاہور میں ایک خاتون کی ٹھنڈے فرش پر موت ایک بہت بڑا ایشو بن گئی۔ ہر طرف سے لے دے ہوئی۔شہباز شریف پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی کہ وہ صوبے میں علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف متوفیہ کے گھر قصور پہنچ گئے اور اس بے چارگی کے عالم میں عورت کی موت پر سخت غم و غصے اور ندامت کا اظہار کیا۔ انہوں نے بعدازاں لاہور کی ایک تقریب میں اس پورے واقعہ کی روداد بھی سنائی جو وہ قصور سے عورت کے ورثاء کی زبانی سن کر آئے تھے۔ اس روداد کے مطابق لاہور کے چار ہسپتالوں کی انتظامیہ عورت کے لواحقین کو فٹ بال بنا کر کھیلتی رہی۔ کبھی ایک ہسپتال اور کبھی دوسرا ہسپتال۔ اب یہاں سے میری سوچ کا زاویہ اس طرف گیا کہ اس عورت کو ہسپتال کے بستر پر جگہ دلانا بھی کیا وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ذمہ داری تھی؟ کیا اربوں روپے سے چلنے والے ہسپتالوں کی انتظامیہ، سینئرڈاکٹروں اور دیگر افراد کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ جس طرح دہشت گردی کے ہر واقعہ کی ذمہ دار ی ’’را‘‘ پر ڈال کر ہماری ایجنسیاں سرخرو ہو جاتی ہیں، اسی طرح انتظامیہ کی ہر نااہلی کا ذمہ دار صوبے کے حاکم کو قرار دے کر باقی سب کو من مانی کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔ میڈیا بھی یہی طریقہ اختیار کرتا ہے اور براہ راست صوبے کے حکمران کی اہلیت پر سوال اٹھا دیتا ہے۔ یہ بھی سب نے دیکھا کہ اس واقعہ پر شہباز شریف تو ندامت اور دکھ کا اظہار کر رہے ہیں، مگر چاروں ہسپتالوں کے کسی ایم ایس یا سینئر ڈاکٹر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس کی ذمہ داری قبول کرے۔ اُلٹا جناح ہسپتال کے ایم ایس نے فوٹیج بنانے والے کی تلاش شروع کر دی تاکہ اسے قرار واقعی ’’سزا‘‘ دی جا سکے۔


میں خود وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ان ترجیحات کے خلاف ہوں، جن میں وہ فلائی اوورز، انڈر پاسز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن کیا اس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبے میں طبی سہولتوں کا کوئی سامان ہی موجود نہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہر سرکاری ہسپتال میں اس کا سپرنٹنڈنٹ یا سینئر ڈاکٹر جب چاہے کمرے کی بھی گنجائش پیدا کر لیتا ہے اور وارڈ میں بیڈ کی بھی، کیا یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ پرائیویٹ طور پر سینئر ڈاکٹروں سے چیک کرانے والے باآسانی سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہو جاتے ہیں، کیا وارڈز کے انچارج ڈاکٹرو ں نے انہیں اپنی ذاتی جاگیر نہیں سمجھ رکھا، جن کی چٹ کے بغیر کوئی مریض داخل ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ سب باتیں سامنے کی حقیقتیں ہیں اور انہیں کوئی بھی کسی وقت بھی چیک کر سکتا ہے۔ اب ایسے میں اگر وہ بدقسمت عورت ٹھنڈے فرش پر جگہ نہ ملنے سے مر گئی تو اس کا نزلہ بھی انہی ڈاکٹروں پر گرانا چاہئے۔ خواہ مخواہ بات کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے اِدھر اُدھر کر کے درحقیقت ہم ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں، جنہوں نے سرکاری اداروں کو اپنی نوکری کی بنیاد پر یرغمال بنا رکھا ہے اور اپنے فرائض کو بھول کر دولت کی ہوس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔۔۔یہ امر ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان میں صحت کی سہولتیں بہت کم ہیں۔ ان کے لئے بہت تھوڑا بجٹ مختص کیا جاتا ہے، لیکن ساری خرابی صرف اسی وجہ سے نہیں، بلکہ حرص و طمع کے ساتھ ساتھ نیتوں میں کھوٹ کی وجہ سے بھی ایسا ہو رہاہے۔ اب کیا یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹر آتے ہی نہیں۔ سارے وارڈ جونیئر ڈاکٹروں یا نرسوں کے سر پر چلتے ہیں۔ سرکاری اوقات کے دوران یہ سینئر ڈاکٹر پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریض چیک کر رہے ہوتے ہیں، شام کو اپنی رہائش گاہوں پر کم از کم ایک ہزار روپیہ فیس لے کر مریض کو چیک کرتے ہیں اور ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مریض کو اس نجی ہسپتال میں ریفرکریں جہاں سے انہیں کمیشن ملتا ہے۔جب مریض کے ورثا یہ دہائی دیتے ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تو پھر انہیں سرکاری ہسپتال میں داخلے کا پروانہ دے دیتے ہیں۔


لاہور سمیت صوبے کے تمام بڑے شہروں کے نجی ہسپتالوں اور کلینکس کو دیکھیں وہاں سرکاری ڈاکٹروں کے بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہوں گے۔ اب کوئی بتائے کہ مفادات کا یہ تصادم سرکاری ہسپتالوں کو بہتر بنانے میں کس طرح مدد دے سکتا ہے ۔ یہ مافیا تو جان بوجھ کر سرکاری ہسپتالوں کا ایسا نقشہ پیش کرتا ہے کہ مریض کو وہاں لے جاتے ہوئے بھی اس کے ورثاء دس بار سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور تو اور ینگ ڈاکٹر خود اپنی احتجاجی تحریکوں میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کو سینئر ڈاکٹروں نے یرغمالی بنا رکھا ہے، وہ یہاں ترقی ہونے دیتے ہیں نہ مریضوں کے لئے سہولتیں فراہم کرتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی لاکھوں روپے ماہانہ کی آمدنی ختم ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سینئر ڈاکٹروں کی ساری پرائیویٹ پریکٹس کا انحصار سرکاری نوکری پر ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے نام کے ساتھ میوہسپتال، جناح ہسپتال، نشتر ہسپتال، الائیڈ ہسپتال کا عہدہ لکھتے ہیں تو لوگ ان سے متاثر ہو جاتے ہیں، مگر ان کی اپنی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی مریض کا علاج سرکاری ہسپتال میں نہ ہو۔ اب یہاں پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو پابند کرے ؟ اس کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ ہاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے، مگر کیا یہ معاملہ اتنا آسان ہے؟ جب ینگ ڈاکٹر آئے روز ہڑتال کر کے زندگی کا پہیہ جام کر دیتے ہیں تو سینئر ڈاکٹروں پر ہاتھ ڈال کر حکومت کہاں کھڑی ہو گی ڈاکٹروں کی ہڑتال ہوتی ہے تو میڈیا مریضوں کی حالت زار کے ڈھنڈورے پیٹنے لگتا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے حکومت پر دباؤ پڑتا ہے کہ وہ ناجائز مطالبات بھی مان لے۔ ہڑتال کرنے والوں کا تو مقصد ہی یہ ہوتا کہ اذیت ناک صورت حال پیدا کی جائے تاکہ حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔


میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ڈاکٹرو ں کی ہڑتال کو اگرمیڈیاپر کوریج نہ دی جائے تو وہ اسے آئے روز کا کھیل نہ بنا ئیں، جب میڈیا یہ خبر دیتا ہے کہ مریض تڑپتے رہے، کوئی مر گیا، کسی کی چیخیں سنائی دیتی رہیں، تو اس سے مریضوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، البتہ ان کی زندگی سے کھیلنے والوں کو مزیدہلہ شیری ضرور مل جاتی ہے۔ جب تک سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے اور ڈاکٹروں کے دلوں میں خوف خدا پیدا نہیں ہوتا، ان کی ذہنیت نہیں بدلتی، اس وقت تک کچھ نہیں بدلے گا، چاہے سو ہسپتال مزید قائم کر دیئے جائیں۔ یہ کسی ایک شعبے کا المیہ نہیں، اس حمام میں سبھی برہنہ ہیں۔ آپ ریلوے کی ایڈوانس ٹکٹ لینے جائیں، وہ بتائے گا کہ تمام نشستیں بھر چکی ہیں، آپ پی آئی اے کی بکنگ کرانے کی کوشش کریں تو آپ کو ’’نو سیٹ‘‘ کا جواب ملے گا، لیکن اگر آپ سیدھے ائیرپورٹ یا ریلوے سٹیشن پہنچ جائیں تو سیٹ بھی مل جائے گی اور ٹکٹ بھی۔۔۔ شرمناک صورت حال یہ ہے کہ ہم اس سوچ کو ہسپتالوں میں بھی لے آئے ہیں۔ یہاں بیٹھے ہوئے افراد بھی ریفرنس یا مفاد کے بغیر کسی کو ہسپتال میں داخل نہیں کرنا چاہتے خواہ وہ کتنی ہی خراب حالت میں ہو۔ اسی سوچ کے نتیجے میں جناح ہسپتال جیسے واقعات پیش آتے ہیں اور ہم اصل ذمہ داروں کو چھوڑ کر سیاسی تالاب کی مرغابیاں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

مزید :

کالم -