اسلامی نظریہ اور ریاستِ پاکستان (2)
حکومت اور ریاست :آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایک چیز جو انسان نے صدیوں کے تجربے کے بعد حاصل کر کے اپنا اثاثہ شمار کیا ہے وہ ریاست اور حکومت کے دو علیحدہ تصورات ہیں۔ آج سے چند صدیاں پہلے تک دنیا میں بادشاہت کا دور تھا ،ملک اور علاقے فتح ہوتے تھے، حکومت بنتی تھی، بادشاہت کا نظام تھا، بعض اوقات جبر وقہر کے ذریعے یہ نظام صدیوں پر محیط ہو جاتا تھا، جیسے یونانی اور رومی ریاستیں۔ وہاں حکومت یا بادشاہت وقت کے خلاف بولنا۔۔۔ ریاست پر تنقید اور بغاوت شمار ہوتا تھا یعنی حکومت کی مخالفت کرنا ’’غداری‘‘شمار ہوتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ انسان ذہنی اور علمی پختگی کی طرف آیا ہے تو سیاست۔۔۔ POLITICAL SCIENCE۔۔۔کے شعبے میں یا جدید سوشل سائنسز کے لحاظ سے آج ریاست اور حکومت کو الگ الگ سمجھا جاتا ہے۔ ریاست ایک (نسبتاً)پائیدار شئے ہے اور حکومت عارضی اور وقتی ہے بادشاہ یا حکمران فوت ہو جاتا ہے کوئی اور ’’بادشاہ‘‘ یا منتخب حکمران اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ حکومت بدل گئی مگر ریاست ، اس کے مقاصد، اہداف اور نظریہ برقراررہا۔ نئی حکومت کے لئے انہی باتوں کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانا اس نئے حکمران کا فرض منصبی شمار ہوتا ہے۔ دنیا میں آج سرکاری عہدوں پر بالخصوص صدر یا وزیر اعظم سے حلف لیا جانا اسی ریاستی نظریہ کی حفاظت و نگہبانی کے ساتھ پھیلاؤ و اشاعت یا کم از کم استحکام کی مساعی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کے خلاف جلوس، مظاہرے، دھرنے دیئے جاسکتے ہیں۔ حکومت بدلی جاسکتی ہے، حکمرانوں پر ان کی کارکردگی کی وجہ سے سچے جھوٹے الزامات لگائے جاسکتے ہیں، ان کو بدنام کیا جاسکتا ہے، مگر ریاست اور اس کے نظریئے کے خلاف وہی کام ’’بغاوت‘‘ شمار ہوتا ہے۔آج سے چند صدیوں قبل یہ تصور دنیا میں رائج نہیں تھا۔ حکومت کے خلاف اُٹھنا یا حکمرانوں کے خلاف اقدام’’ ریاست‘‘ کے خلاف اقدام ،یعنی بغاوت تصور ہوتا تھا۔
ریاستی ادارے(ستون):’’ریاست‘‘ کے اس جدید تصور کو انسانیت کی مشترکہ قابل قدر متاع سمجھا گیا ہے ،یوں عصر حاضر میں اس ریاست کے استحکام ، اور دوام کے ساتھ پھیلاؤ کے پہلو سے بڑا علمی و عملی کام سامنے آیا ہے اور ریاستی امور پر غور و فکر کرنا علم کا پورا ایک شعبہ (DEPARTMENT)بن گیا ہے۔ اس شعبے علم کو STATECRAFTکا نام دیا گیا ہے۔ اس شعبے میں بہت ساکام ہوا ہے اور ابھی مزید بہت سارا کام باقی ہے۔ آج کی لادین ریاستوں۔۔۔ SECULAR STATES۔۔۔نے اپنے عوام کو ’’آزادی‘‘ کا کھوکھلا نعرہ دے کر بہلا رکھا ہے، مگر اس نعرے کے پردے میں بعض غیر مرئی مقتدر قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم رہتی ہیں۔اس ریاستی نظم و نسق اور ریاست کی کامیابی اور پائیداری کے لئے درج ذیل ریاستی اداروں کا ہونا ضروری ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے یہ ادارے ریاست کے ستون۔۔۔ PILLARS OF THE STATE۔۔۔کہلاتے ہیں۔
ریاست کے ستون(Pillars of the state) : انتطامیہ (حکومت)، مقننہ (پارلیمنٹ)، عدلیہ (عدالتی نظام) ہائی کورٹس، سپریم کورٹ، فوج (ایک منظم مسلح فوج جو عام طور پر بری، بحری اور فضائیہ پر مشتمل ہوتی ہے)۔۔۔ایک ریاست کے لئے ان چاروں ستونوں (Pillars) پر اہل علم عرصے سے متفق ہیں۔ ریاست کے استحکام کے لئے ان ریاستی ستونوں کو Organs یا اعضاء بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ اس لئے جیسے انسانی جسم ایک جسد واحد ہے اس سے سر، پاؤں، ہاتھ وغیرہ الگ نہیں کئے جاسکتے اور اگر علیحدہ ہو جائیں تو وہ جسد ایک ’نامکمل جسد‘ تو کہلا سکتا ہے مکمل جسد انسانی نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح ان اعضاء یا Organs کے بغیر کوئی ملک ریاست کہلانے کا مستحق نہیں یا یہ Organ موجود تو ہوں، مگر ناکارہ (In-active) ہوں، جیسے کسی انسان پر فالج کا حملہ ہو جائے اور اس کی ٹانگ یا ہاتھ شل ہو جائے تو وہ انسان شاید زندہ تو رہ سکے گا مگر مکمل انسان نہیں کہلا سکتا۔ جو اپنے مفادات کا پورا پورا تحفظ کرسکے، اسی طرح ایک ریاست کے یہ اعضا صحیح سلامت ہوں گے تو ان کی کارکردگی صحیح ہوگی اور صحیح سمت میں ہوگی تو وہ ریاست زندہ و پائیدار رہے گی بصورت دیگر اگر یہ اعضا ناکارہ (Non-functional) ہو جائیں یا اپنے فرائض صحیح ادا نہ کر رہے ہوں یا ان کے فوائد عوام تک نہ پہنچ رہے ہوں تو وہ ریاست ایک کامیاب ریاست یا ’زندہ ریاست‘ کہلانے کی مستحق نہیں سمجھی جائے گی، بلکہ ناکام ریاست (Failed State) سمجھی جائے گی۔
آزاد میڈیا کا کردار: اوپر درج ریاست کے ان چار ستونوں پر مستزاد ریاستی مشینری (State craft) کے ماہرین کا یہ خیال اب پختہ ہوکر اتفاقِ رائے (Consensus) کی حد تک پہنچ گیا ہے کہ ریاست کے ان ستونوں کو صحیح سمت میں چلانے کیلئے ہر ملک میں میڈیا (ذرائع ابلاغ) کا بڑا کردار ہے۔ لہٰذا ہر ریاست میں میڈیا (Media) کا آزاد ہونا ضروری ہے۔یہاں ’آزادی‘ کے لفظ کا مطلب و مفہوم سیاسی آزادی نہیں، بلکہ مادر پدر آزادی ہے کہ مذہب و دین و معاشرہ و اخلاق و سماج کے ہر بندھن اور قدغن سے آزادی اور آزاد روی۔ جو چاہو کھاؤ، جو چاہو پیو، جو چاہو دیکھو، جو چاہو سنو، جو چاہو کرو، کسی چارہ گر کی نصیحت کو نہ سنو اور کسی مذہبی رہنما ، دینی پیشوا کی واعظانہ گفتگو پر کان نہ دھرو جو شیطان دل میں ڈال دے وہی کرو، بلکہ نیکی اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی پر ڈٹ جاؤ۔ اس آزاد روی کے تصور کو سکیولرازم نے عام کیا ہے اور اس کو لبرل ازم (Liberalism) کا نام دیا گیا ہے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ میڈیا کا اس طرح لبرل ازم کے معنی میں آزاد ہونا ضروری ہے جو ریاستی اداروں پر بے رورعایت تنقید کرسکے۔ سیکولر ریاستوں میں تو یہی ہو رہا ہے، یہی ممکن ہے اور یہی ہونا چاہئے۔ یہ صورت حال مغربی تصورات کے لحاظ سے انسانیت کی معراج ہے اور مغربی مفکرین کے نزدیک End of History ہے، اس سے آگے انسانی سوچ اور ترقی کا کوئی اور میدان نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سیکولر ریاستیں یہی کچھ کر رہی ہیں، ہمارا پڑوسی بھارت اس معاملے میں مغرب سے بھی چند قدم آگے ہے۔پاکستان میں بھی گزشتہ کچھ عرصے سے مغرب کی سرپرستی اور این او جی کے پھیلائے گئے تصورات کی آڑ میں میڈیا نے آہستہ آہستہ یہی کچھ کرنا شروع کردیا ہے اور اب سیکولرازم کا پرچارک بن چکا ہے۔(جاری ہے)
نظریاتی ریاست میں نظریہ کی اہمیت:
ایک نظریاتی ریاست میں نظریہ بھی ایک اہم ریاستی ستون ہے۔نظریہ سے مراد نظریہ کی بنیاد پر ایک نظریاتی نظامِ تعلیم ہے۔ ایک نظریاتی ریاست میں نظریہ کی کیا اہمیت ہے؟ اس سوال پر بحث سیکولرازم کے علمبرداروں کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ یہ سیکولر ریاستوں کا۔ اس لئے کہ مغرب میں کوئی نظریاتی ریاست ہے ہی نہیں۔ اسرائیل ایک نظریاتی ریاست ہے تو وہ مغرب کے لئے ایسا منہ زور گھوڑا ہے کہ تمام یورپی اور امریکی امامانِ سیاست اور تمام مغربی کلیساؤں کے شیوخ سب اسرائیلی اور صہیونی ایجنڈے کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور اسرائیل کے معاملات میں دخل دینے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جو شاید ان کے تین میں سے ایک خدا حضرت عیسیٰؑ کے سولی چڑھ جانے سے بھی معاف نہیں ہوسکے گا (نعوذ باللہ)۔۔۔لہٰذا نظریاتی ریاست میں نظریہ کی اہمیت صرف پاکستان کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ نہ سعودی عرب کا ہے کہ سعودی خاندان کی حکومت ہے، نہ مصریوں کا، نہ شامیوں، نہ عراقیوں اور نہ اردن کے بادشاہ سلامت کا۔ یہ دردِ سر صرف پاکستان کے مسلمانوں کا ہے۔ اس ملک کے بانیان علامہ اقبال اور قائداعظم ہیں۔ اس ملک کا نظریہ فکرِ اقبال یا ’اسلام‘ جو علامہ اقبال نے سمجھا، کے علاوہ کچھ نہیں اور یہی کچھ عیاں ہے قائداعظم محمد علی جناح کے لاتعداد خطبات و تقاریر سے۔
فکرِ اقبال۔۔۔ قرآن و حدیث سے ماخوذ اور خودی بمعنی روح انسانی کے اثبات اور پائیداری کی سوچ پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال ابن عربی کے قائل ہیں، انہیں رومی کی شاگردی پر فخر ہے، غزالی کے مداح ہیں ہاں۔۔۔ وحدت الوجود کا وہ تصور جس سے فنائیت و کاہلی اور بے عملی پیدا ہو، اس کے منکر ہیں اور زندہ و بیدار خودی اور ہمہ وقت چوکس اور مصروف عمل خودی کے علمبردار ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں (جو صوفیائے اسلام کی تبلیغ سے ہی ایمان لائے تھے اور امام غزالیؒ و رومیؒ کے نظریات کے پیروکار تھے جس میں مختلف اکابرین اپنے اپنے حالات میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کی اصلاح کا بیرااٹھاتے رہے ہیں اور بڑے عظیم کام کئے ہیں) کے اجتماعی ضمیر کی ترجمانی کرکے اپنے کلام کو جاودانی بخشی، خالق کائنات نے انہی کے کلام کے ذریعے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو بیداری بخشی اور سیاسی سوچ دی اور پاکستان جیسا ملک عطا کردیا اور فکرِ اقبال کو اس ملک پاکستان کا نظریہ بنا دیا۔ یہ ’فکرِ اقبال‘ پاکستان میں ایک نظریہ اور Ideology کے طور پر اجاگر ہونا ضروری ہے۔
نظریاتی نظام تعلیم:
ایک نظریاتی ریاست میں یہ ذمہ اری ایک نظریاتی نظامِ تعلیم کے ذریعے ادا ہوتی ہے۔ نظریاتی نظامِ تعلیم ہی ملک کے عوام و خواص اور ریاستی ستونوں کے کارپردازوں میں نظریاتی تسلسل کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور اس طرح نظریاتی نظامِ تعلیم زندہ اور جاندار ہو تو ملک کی نظریاتی سرحدیں نمایاں اور مستحضر رہتی ہیں۔اگر ریاست کے سارے ستون اپنی جگہ قائم اور مضبوط ہوں تو۔۔۔پاکستان جیسی نظریاتی ریاست جو لا الٰہ الا اللہ کی علمبردار ہے اگر اس کے سارے ریاستی ستون مضبوط ہوں تو فکر اقبال کے مطابق پاکستان میں رہنے والے ہر انسان (مسلم و غیر مسلم) کے لئے * عدل و انصاف کی ضمانت ہوگی۔ * ظلم، استحصال، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ، فراڈ، ہوسِ زر، سود، رشوت، بددیانتی سے پاک ماحول ہوگا۔ * معاشرتی برائیاں از قسم ملاوٹ، دھوکہ، جعلی و نقلی (2 نمبر) مال کی فروخت، کم تولنا، ملاوٹ وغیرہ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ * محنت کی قدر اور عزت ہوگی۔ بے کار اور مفت خور لوگوں کو راہِ راست پر لایاجائے گا۔ * جاگیرداری، غیر حاضر زمینداری اور ماتحتوں (مزارعین و ملازمین و لیبر) کا استحصال بند ہو جائے گا۔ * ہر (مسلم و غیر مسلم) پاکستانی شہری کے لئے کفالتِ عامہ کا اہتمام ہوگا، یعنی جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، کما رہا ہے، گھر چلا رہا ہے، ٹھیک ہے مگر کسی وجہ سے محتاج اور اپاہج ہو جائے (سڑک کا حادثہ، فیکٹری اور کارخانے میں آگ، بجلی اور کسی ناگہانی واقعہ سے حادثہ، جان لیوا بیماری، اپنی کسی غلطی کی وجہ سے ہاتھ کٹ جانا، وغیرہ وغیرہ) تو اس کو حکومت کی طرف سے روٹی، کپڑا، مکان، بچوں کی مفت تعلیم اور مفت علاج معالجے کی گارنٹی ہوگی۔ اگر کوئی شخص اپنی غلطی سے ایسا جرم کرلے کہ اسے سزائے موت ہو جائے تو بھی اس کے اہل خانہ بھوکے نہیں مریں گے، بلکہ کفالتِ عامہ کے تحت باعزت شہری کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے۔ * مساواتِ انسانی کے اسلامی اصول کے تحت خواتین اور مردوں کو کام کاج، کھیل کود، بنیادی صحت، بنیادی تعلیم کے برابر مواقع میسر ہوں گے۔ * شراب، بدکاری اور بے حیائی کی طرف راغب کرنے والے لوگ، میڈیا، تحریر و تقریر، اشتہارات، ناچ گانا اور بے حیائی کے اڈے بند کردیئے جائیں گے، خلاف ورزی پر سخت سزا ہوگی۔ * مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ میدان کار ہوں گے۔ پردے کا اہتمام ہوگا۔ پرائمری تعلیم قریب ترین جگہ پر صرف خواتین اساتذہ کے سپرد کردی جائے گی۔ فیملی خواتین کے لئے علیحدہ کھیل کود، سیر و تفریح کے مواقع ہوں گے۔ عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت کا اہتمام ہوگا۔ * مردوں کے ہسپتالوں میں خواتین نرسوں کا متعین ہونا ختم کردیا جائے گا۔ خواتین نرسیں صرف خواتین اور بچوں کے وارڈز میں ہوں گی دوسرے وارڈ میں مرد نرسز (Male Nurses) کام کریں گے۔ * زکوٰۃ و عشر کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ * غیر مسلم اپنے مذہب کی تعلیم اپنی نئی نسل کو اپنے خصوصی سکولوں میں دے سکیں گے۔ اس کا انتظام ان کے اپنے اہل علم کے سپرد ہوگا۔ اپنی عبادات اور رسومات بھی خاص معین جگہ پر کرسکیں گے۔ مسلمانوں میں ان کے مذہب کی تبلیغ نہیں ہوگی۔ * غرض۔۔۔ ایک مثالی نظریاتی ریاست میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، شرک نہیں ہوگا۔ عمر رسیدہ افراد کی خبر گیری ہوگی، ظلم نہیں ہوگا، بے انصافی نہیں ہوگی۔ * سیاست چند گھرانوں اور خاندانوں تک محدود نہیں ہوگی۔ مراعات یافتہ طبقات یعنی اشرافیہ کا خاتمہ ہو جائے گا (یا راہِ راست پر آ جائے گی اور اسلام کے اندر متعین اپنا رول ادا کرے گی)۔
پاکستان اور اس کے ریاستی ستون:
آج پاکستان کے ریاستی ستون کمزور، مخدوش اور اپنی جگہ پر قائم نہیں ہیں، ایک دوسرے کے دائرہ اختیار (Zone of Activities) میں مداخلت کر رہے ہیں، لہٰذا ہر طرح کی ممکنہ کرپشن، ظلم، زیادتی، ناانصافی، بددیانتی، سود، رشوت، مفت خوری نیچے سے لے کر اوپر تک حکومتی ایوانوں اور آسودہ حال طبقات کا وطیرہ بن چکی ہے۔ غریب غریب سے غریب تر ہورہا ہے اور امیر امیر سے امیر تر۔۔۔ اور اس کے نتیجے میں دست قدرت کے تھپیڑوں (خانہ جنگی) کی آہٹ قریب آتی محسوس ہو رہی ہے۔ مسلم عوام ،حتیٰ کہ غیر مسلم عوام کے ساتھ بھی ناانصافی ہو رہی ہے۔ کمزور طبقات، مزدور، جوان، عورتیں سب ظلم اور استحصال کا شکار ہیں۔ان حالات میں یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کے ریاستی ستون کمزور، بے عمل (ناکارہ) اور غیر مؤثر (Non functional) ہیں۔۔۔بالعموم حکمران طبقہ عیاش اور دین سے دور، میڈیا دین سے بیزار، ہمارے عوام دین سے غافل، علماء اپنی جنت کی پیشگی بکنگ (Advance booking) پر فرحاں و مطمئن، مذہبی و دینی مخلص سیاسی و غیر سیاسی زعماء و رجالِ کار تھکے ہوئے، بددل اور مایوس نظر آتے ہیں،خواص و عوام کا ایک طبقہ حکمرانوں کو ان کی بداعمالیاں اور ریاست کے دیگر ستونوں کو ان کی نااہلی کا آئینہ دکھانے کے لئے ’دھرنے‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ سب کچھ نظریاتی زوال اور اس کے نتیجے میں ریاستی ستونوں کے نظریاتی انحراف اور نظریہ سے عملی بغاوت کا ثمرہ (Outcome) ہے جس کی تلخی ملک کا ہر شہری محسوس کر رہا ہے۔اس پس منظر میں ہمارے نزدیک ملکی سطح پر غور و فکر کی اشد ضرورت ہے، اس عظیم اور اہم کام کے لئے کوئی کمیشن بنایا جائے، پارلیمنٹ میں بحث کی جائے، اخبارات میں کھلی بحث کے ذریعے اس نظریاتی زوال کی وجوہات تلاش کی جائیں، طریقہ کوئی ایک یا سب اختیار کرلئے جائیں، اس ساری محنت کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ پاکستان میں بسنے والے ہر شخص نے نظریۂ پاکستان سے انحراف کیا ہے، اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کی ہے اور اس جرم میں عوام سے لے کر خواص تک (ملکی آبادی کی افقی تقسیم۔۔۔ (Horizontal stratas اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ (مزدور، کسان، تاجر، کارخانہ دار، علماء، سیاسی جماعتیں، حکمران اور عوام ملکی آبادی کی عمودی تقسیم۔۔۔ (Vertical Polarization) سب کے سب مجرم ہیں (جاری ہے)۔