دہشت گردی کے خلاف تیز ترین عدالتی نظام

دہشت گردی کے خلاف تیز ترین عدالتی نظام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت جاری ہے۔ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تیز ترین عدالتی نظام لائیں گے۔ دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کے لئے الگ الگ قانون بنانا ہوں گے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کی گنجائش نہیں، جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی منسوخی کا معاملہ ایک مشکل کام ہے مگر چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ انہوں نے کہا میں نے سینٹ میں اپنی تقریر کے دوران کسی دہشت گرد تنظیم، کالعدم تنظیم یا فرد کو رعایت نہیں دی کچھ لوگوں نے اپنے مطلب نکال لئے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ہر چیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا مناسب نہیں اور نہ ہی مولانا ساجد نقوی اور حامد موسوی جیسی شخصیات کو خدانخواستہ کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کی تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں اس لئے دہشت گردی اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں میں فرق ہونا چاہئے۔ اس میں کون سی غلط بات ہے اگر کوئی اندھا یا گونگا بن کر بیٹھ جائے تو کیا ہو سکتا ہے۔ملٹری کورٹس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایک اجلاس ہوا ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں سوچ بچار کر رہی ہیں۔ تجاویز مانگی گئی ہیں آئندہ چند روز تک صورت حال واضح ہو جائے گی۔
جہاں تک دہشت گردی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا تعلق ہے اگر اُنہیں ان کے جرائم کی بروقت سزا ملتی رہے تو دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں طویل عرصے تک ان کے مقدمات کے چالان ہی تیار نہیں ہوتے اور نہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ خاصی تاخیر کے بعد جو چالان عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں ان کی پیروی بھی ٹھوس طریقے سے نہیں کی جاتی نہ گواہوں کو بروقت عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔
بعض کیسوں میں تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک مقدمے کے گواہوں کو ایک ایک کر کے قتل کر دیا گیا اور یوں مقدمے کا کوئی بھی گواہ زندہ نہ بچا، اس طرح ظاہرہے مقدمہ کمزور ہوتا ہے پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جب گواہ پیش نہیں ہوتے اور مقدمے میں قانونی سقم موجود ہوں تو ملوث ملزم بری ہو جاتے ہیں اس کے بعد یہ پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے کہ پولیس بڑی محنت سے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرتی ہے اور عدالتیں اُنہیں بری کر دیتی ہیں۔ ظاہر ہے عدالتوں نے تو شواہد اور گواہوں کے بیانات کو جانچ پرکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اگر کسی مقدمے میں کسی بے گناہ کو گرفتار کر لیا جائے اور مقدمے کی سماعت کے دوران اس کے خلاف نہ تو کوئی گواہ پیش کیا جا سکے اور نہ ہی کوئی دوسری ٹھوس شہادت لائی جا سکے تو عدالت کسی بے گناہ کو تو سزا نہیں دے سکتی یہاں تو اب ایسے ایسے مقدمات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ کسی مقدمے میں کسی ملزم کو پھانسی دیدی گئی اور بعد میں وہ بے گناہ ثابت ہو گیا۔دہشت گردی کے مقدمات میں صحیح مجرموں کو گرفتار کرنا اور بھی مشکل ہوتا ہے عام طور پر دہشت گردی کی وارداتوں میں خود کش حملہ آور ملوث ہوتے ہیں اور جب کوئی بمبار اپنے آپ کو اڑاتا ہے تو ثبوت بھی اس کے ساتھ ہی اُڑ جاتے ہیں۔
ایسے مقدمات میں پولیس اگر محنت کر کے اس کے سہولت کاروں یا اس کی امداد کرنے والوں تک پہنچ جائے اور اُنہیں گرفتار بھی کر لے تو یہ بڑا تفتیشی کار نامہ تو کہلائے گا بشرطیکہ جو لوگ گرفتار ہوئے ہوں ان کے خلاف شواہد اور شہادتیں بھی موجود ہوں۔ اگر کسی ملزم کو دوران حراست تھرڈ ڈگری طریقوں سے ڈرا دھمکا کر اعانت جرم کا قصور وار ٹھہرا دیا جائے تو موقع ملتے ہی وہ عدالت میں اپنے اعترافی بیان سے بھی مکر جاتا ہے۔ ایسے میں پولیس اگر یہ موقف اختیار کر لے کہ دورانِ حراست تو اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا تھا اور خود ہی وارداتوں میں ملوث ہونے کو مانا تھا تو عدالت ان سے شواہد طلب کرتی ہے اگر ایسا نہ ہو سکے تو قانون کسی بے گناہ کو تو سزا دینے کی حمایت نہیں کرتا۔
دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کو فوجی عدالتوں میں اس لئے منتقل کیا گیا تھا کہ سول عدالتوں کے ججوں اور وکلاء کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں گواہوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا اور مقدمے کا چالان مرتب کرنے والے تفتیشی افسروں کو بھی خوفزدہ کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں یہ حل نکالا گیا کہ آئین میں ترمیم کر کے دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کئے جائیں یہ عدالتیں دو سال کے لئے بنائی گئیں جن کی مدت اب ختم ہو گئی ہے اور بیشتر اپوزیشن جماعتیں اس سلسلے میں مزید تعاون کے لئے تیار نہیں یا اگر ہیں تو پیشگی شرائط بھی رکھ رہی ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ایک اجلاس ہو چکا ہے اور تجاویز مانگی گئی ہیں۔ اگرچہ عوامی حلقے تو فوجی عدالتوں کے اس لحاظ سے حامی ہیں کہ اس طرح جرائم پیشہ افراد کو جلد سزائیں ہو جاتی ہیں اور جرائم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ لیکن قانون دان اور سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر ذرا مختلف نقطہ نظر سے سوچتی ہیں جو بھی فیصلہ کرنا ہے ان کی رائے کو پیش نظر رکھ کر جلد کر لینا چاہئے اور اگر دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لئے تیز ترین نظامِ عدل بن رہا ہے اور حکومت کو امید ہے کہ اس طرح دہشت گردوں کو بروقت سزائیں ملتی رہیں گی اور ان پر عملدرآمد بھی تیزی سے ہوتا رہے گا تو پھر اس نظام کی تشکیل فوری طور پر ہونی چاہئے۔
چودھری نثار علی خان اگر دہشت گردی اور فرقہ واریت کے لئے الگ الگ قوانین بنانے کے حامی ہیں تو بھی انہیں اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں اور قانونی حلقوں کو مطمئن کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں مشاورت کا عمل شروع کرنا چاہئے۔ جہاں تک فرقہ واریت کا تعلق ہے ہمارے ہاں عمومی رجحان یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے خیالات کی بنیاد پر اس مسئلے پر غور کرتے ہیں وہ مخالفین کو تو سخت سزائیں دینے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے نظریات کے حامی لوگوں کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں حالانکہ ایک ہی جرم کی سزا مسلکی نظریات سے قطع نظر ہر کسی کے لئے یکساں ہونی چاہئے۔ چودھری نثار علی خان غالباً یہی بات کہنا چاہتے تھے جس کا مفہوم مختلف نکال لیا گیا بہرحال مشاورت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی میں جو بھی ملوث ہو اس کے خلاف بلا لحاظ اس کے فقہی نظریات کے قانونی کارروائی ہونی چاہئے اور جرم کی نوعیت کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔

مزید :

اداریہ -