کیا بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات کا اعتبار قائم کیا جاسکتا ہے ؟

کیا بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات کا اعتبار قائم کیا جاسکتا ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
 جن خواتین و حضرات کا یہ خیال ہے کہ بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے اگر الیکشن ہوں تو نتیجہ سو فیصد درست نکلتا ہے یا پھر یہ کہ اس سسٹم میں ’’دھاندلی‘‘ کی گنجائش نہیں ہوتی انہیں لاہور بار کے الیکشن کے التوا کی تفصیلات پوری توجہ سے سمجھ لینی چاہئیں۔ جہاں پہلی مرتبہ بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے ووٹ ڈالے جا رہے تھے لیکن اگر ایک ووٹ ڈالا جاتا تو بارہ یا پندرہ ووٹ جمع ہو جاتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض مشینوں پر انحصار کرکے شفاف الیکشن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی، یہ ضمانت صرف دیانتدار سسٹم اور اس سسٹم کو بروئے کار لانے والا دیانتدار عملہ ہی دے سکتا ہے ورنہ مشین خود بھی خراب ہوسکتی ہے اور حضرت انسان بھی اسے اپنی مرضی کے تابع کرکے من پسند نتائج حاصل کرسکتا ہے۔ یہ جو آپ خبروں میں اکثر پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں عالمی شہرت کے بینک کے اکاؤنٹ ہیک کرکے ان میں سے کروڑوں روپے نکلوا لئے گئے یا ہیکروں کے کسی گروہ نے کسی بینک کے پورے سسٹم کو ہی ہیک کرلیا اور پاکستان میں اگر زیادہ نہیں تو بہت سے لوگ اس تجربے سے گزرے ہوں گے کہ انہوں نے کسی بینک کی اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے کیلئے مشین میں کارڈ ڈالا، رقم تو نہ نکلی البتہ جتنی رقم نکالنے کی کوشش کی گئی وہ اکاؤنٹ سے منہا ہوگئی۔ جہاں جہاں جدید مشینوں پر انحصار ہے وہاں وہاں ایسے تجربات سے لوگ گزرتے رہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے تو بہت پہلے کہہ رکھا ہے:
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، امریکہ جیسی سپر پاور کے صدارتی انتخابات ہوئے تو یہ خبریں آئیں کہ روس نے مشینوں کے ذریعے انتخابات میں مداخلت کی تھی، بھارت میں گزشتہ کئی سال سے بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں اور ایسی شکایات منظرعام پر آتی رہتی ہیں کہ مشینوں کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ کم یا زیادہ ہوگئے۔
لاہور بار نے طویل منصوبہ بندی کے بعد بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بڑے چرچے بھی تھے کہ پاکستان میں ایسا تجربہ ایک ایسی تنظیم کر رہی تھی جس کے سو فیصد ووٹر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہیں مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے میں کوئی دقت بھی نہیں، لیکن لاہور میں پہلا ہی تجربہ ناکام ثابت ہوا، اب الیکشن ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردیئے گئے ہیں دیکھیں اگلے ہفتے یہ مشینیں کیا گل کھلاتی ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن بھی اس تجویز پر غور کرتا رہتا ہے کہ انتخابات بائیو میٹرک سسٹم کے تحت کرائے جائیں، مشینوں کی خریداری کی بات بھی ہوتی رہتی ہے لیکن عملاً جب یہ نظام رائج ہوگا تو معلوم ہوگا کہ اس کے راستے میں کون کون سی مشکلات حائل ہیں۔
پاکستان کے عام انتخابات کا المیہ یہ نہیں ہے کہ یہ مشینوں کے ذریعے ہوتے ہیں یا انسانی ہاتھوں سے گزر کر اختتام پذیر ہوتے ہیں اصل المیہ یہ ہے کہ آج تک پاکستان کے انتخابات کا اعتبار قائم نہیں ہوا، ہارنے والوں نے کبھی نتائج تسلیم نہیں کیے حالانکہ اب تو انتخابات نگران حکومت کراتی ہے اور امیدواروں کا تعلق حکومت سے نہیں ہوتا لیکن 2013ء کے انتخابات پر عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگا دیا، البتہ جب اس مقصد کیلئے سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں کمیشن قائم ہوا تو وہ اس میں اپنا نقطہ نظر ثابت نہ کرسکے۔ جن 35 پنکچروں کا بڑا شہرہ تھا ان کا ذکر کمیشن کے روبرو سرے سے گول کرگئے اور جب پوچھا گیا کہ کمیشن کے روبرو یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ یہ تو سیاسی بیان تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ بڑے صاف شفاف تھے لیکن مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے صبح ہی صبح پولنگ سٹیشنوں کا انتظام سنبھال لیا تھا اور کسی مخالف امیدوار یا اس کے حامی کو پولنگ سٹیشن پر جانے کی اجازت نہ تھی۔ شیخ مجیب الرحمان نے صبح دس گیارہ بجے جب پولنگ شروع ہوئے ابھی بمشکل دو گھنٹے گزرے تھے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ہم قومی اسمبلی کی 162میں سے 160 نشستیں جیت گئے ہیں ہمارے چھوکرا لوگ (عوامی لیگ کے نوجوان ورکر) تو یہ دونوں نشستیں بھی جیتنا چاہتے تھے لیکن ہم نے ان سے کہا کہ ایک سیٹ بڈّھے (نورالامین) کیلئے چھوڑ دو اور دوسری راجے (راجہ تری دیو رائے) کیلئے رہنے دو، یہی نتائج سامنے آئے جو شیخ مجیب الرحمان نے پولنگ شروع ہونے کے دو گھنٹے بعد بتا دیئے تھے، لیکن یار لوگ آج تک ان انتخابات کو صاف شفاف مانتے اور جانتے ہیں اور دھڑلے سے ان کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، لیکن 2013ء کے انتخابات کی پولنگ ختم ہونے کے چھ سات گھنٹے بعد اگر میاں نواز شریف نے یہ کہہ دیا کہ وہ جیت رہے ہیں تو یار لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ یہ دھاندلی کی جانب اشارہ تھا:
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
بھارت میں انتخابات ہمیشہ حکمران جماعت کراتی ہے، حکمران ہونے کے باوجود ہار بھی جاتی ہے جیسا کہ 2014ء کے انتخابات کانگریس نے کرائے لیکن بی جے پی جیت گئی، چیف الیکشن کمشنر ایک مسلمان تھا لیکن کسی غیر مسلم نے نہیں کہا کہ ہندو اکثریت کے ملک میں چیف الیکشن کمشنر مسلمان کیوں؟ جو ہار گئے انہوں نے بھی نتائج کھلے دل سے تسلیم کیے، جنہیں شکایت تھی وہ اپنی عذر داریاں لے کر ٹربیونلوں میں چلے گئے اور سارا سسٹم اسی طرح چل رہا ہے۔ یہ الیکشن پر اعتبار کا عالم ہے، سوائے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے ایام کے، بھارت کے جمہوری اور انتخابی نظام پر کبھی کسی نے انگلیاں نہیں اٹھائیں جبکہ پاکستان کے انتخابی نظام کا اعتبار آج تک قائم نہیں ہوسکا۔ ہم نے سوچا کہ مشینوں کے ذریعے الیکشن کا اعتبار قائم کریں گے لیکن سو فیصد پڑھے لکھے ووٹروں کی تنظیم لاہور بار کے انتخابات کے موقع پر مشینیں بھی ایک کے بارہ ووٹ دکھاتی رہیں ایسے میں کیا ہمارا الیکشن کمیشن مشینوں پر انحصار کرکے الیکشن کا اعتبار قائم کرسکے گا؟ یہی ملین روپے کا سوال ہے، ہمارا اصل مسئلہ اعتبار ہے، بائیو میٹرک یا مینویل سسٹم نہیں ہے۔
بائیو میٹرک سسٹم

مزید :

تجزیہ -