”وزیر اعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی بیان نہیں ، عدالت میں تقریر پر انحصار کیا جا رہا ہے“، سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔ انکے دلائل کل پھر جاری رہیں گے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ ، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل بینچ پاناما کیس کے حوالے سے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل سن رہے ہیں۔
پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو 5رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل سے استفسار کیا ”مخدوم صاحب آپکو دلائل مکمل کرنے میں مزید کتنا وقت لگے گا“ جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری کوشش ہو گی آج آرٹیکل 62اور 63کے حوالے سے دلائل مکمل کر لوں ۔ تقاریر میں تضاد ، کفالت اور پھر دائر اختیار کے حوالے سے بات کرنگا ۔184/7کے ساتھ 4ایشوز پر بات کرونگا ۔”وعدہ کرتا ہوں بطور وکیل اپنے دلائل دہراﺅں گا نہیں“۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وکلاءنے آج عدالت میں داخلے سے روکا ، وکلاءکا کہنا تھا کہ شام تک مطالبات منظور نہ ہوئے تو کل نہیں آنے دیں گے ۔وزیر اعظم کے وکیل نے ڈاکٹر مبشر حسن کیس کا 2009ءکو ہونے والا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور موقف اپنایا کہ مبشر حسن کیس میں وفاقی حکومت کو جاری کی گئی ہدایت پر عمل نہ ہوا ۔یکم اپریل کو عدالت نے وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا اور 26اپریل 2012ءکو وزیر اعظم کو سزا سنائی گئی ۔یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی ۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 4مئی کو سپیکر نے رولنگ دی تو معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ آیا جبکہ 19جون کو عدالت کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کا حکم دیا گیا ۔ نااہلی کے تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرانے کے بعد ہوا جس پر بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ دوہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا ۔ آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں ؟
انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں 7رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا ۔لارجر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ آیا ۔وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف ڈائس پر آگئے اور کہا کہ جن فیصلوں کا حوالی دیا جا رہا ہے انکی نقول فراہم کی جائیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ آپ اپنا کیس پیش نہیں کر رہے تو نقول کا کیا کریں گے؟ وکیل توفیق آصف نے کہا کہ ایک دو روز میں درخواست جمع کر دیں گے.
وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یوسف رضا گیلانی نے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی ، 63/1دوہری شہریت کے حوالے سے غیر واضح ہے ۔ اراکین پارلیمنٹ کیجانب سے دوہری شہریت کے اعتراف پر نااہلی کا فیصلہ آیا ، جن اراکین نے دوہری شہریت ختم کی انہیں بھی معافی مانگنی پڑی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ جن مقدمات کا حوالہ ہے ، ثابت ہوتا ہے کہ کیس سننا عدالت کے اختیار میں ہے ۔ کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔دوہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے۔”عدالت نے صرف دیکھنا ہوتا ہے کہ ریکارڈ کیس کو ثابت کرتا ہے یا نہیں “ ۔ سوال یہ ہے موجودہ دستاویز پر کیا وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے؟
وزیر اعظم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عدالت نے ہر کیس کا حقائق کے مطابق جائزہ لیکر فیصلہ دیا تھا ، دوہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت کے فیصلے کی بنیاد پر تقاریر پر نااہلی نہیں ہو سکتی ۔اس کے بعد سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ ہوا جس کے بعد مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ مخالف تقاریرکے الزام پرصدررفیق تارڈ کے کاغذات مسترد ہوئے ، عدالت نے قار دیا اخباری تراشوں پر ڈی سیٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیارفیق تارڈ نے اپنی تقریر کی تردید کی تھی ؟ کیا آپ وزیر اعظم کی تقریر کی تردید کر رہے ہیں ،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان صاحب آپ تقریر کے متضاد انٹرویو سے بھی انکاری ہیں ۔ جو تقریر کے مطابق نہیں ۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 66کے تحت اسمبلی کی کارروائی عدالت میں نہیں لائی جا سکتی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود استثنیٰ لینے سے انکار کیا تھا ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا استثنیٰ کو ختم کیا جا سکتا ہے جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ یہ استثنیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے وہی اس کو ختم کر سکتی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ استثنیٰ اور استحقاق میں کچھ فرق ہوتا ہے ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کو تعین کر نا ہو گا دو افراد میں کون سچا ہے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ زیر سماعت مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے، تقریر کسی موقف کو ثابت کرنے کیلئے کی گئی تھی ۔ اس تقریر سے صرف معمالے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی لیکن بعد میں کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اسکو استثنیٰ حاصل ہے ،
بی بی سی کی سٹوری میں غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی ، جلد فیصلہ کریں گے کیا کرنا ہے : دانیال عزیز
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 66کو شمال کر نیکا فیصلہ اراکین کو آزادی اظہار رائے کاحق دینا تھا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 66آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے ۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی ، مجلس شوریٰ میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوتی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی بیان نہیں ، عدالت میں وزیر اعظم کی تقریر پر انحصار کیا جا رہا ہے ۔اسمبلی میں تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے تو کیا عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے ؟ عدالت میں معاملہ صرف تقریر پر کارروائی کا نہیں ۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر درخواست خارج کر دی
انہوں نے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے جس پر جسٹس عظمت سعیدشیخ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62بھی آئین کا ہی حصہ ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ آئین کے مطابق جائزہ لینے کے معاملے پر عدالتی فیصلے موجود ہیں تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا ؟ مخدوم علی خان نے جواب دیاکہ بھارتی عدالتوں کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اطلاق نہیں ہوتاجس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا بھارتی آئین میں بھی آرٹیکل 62ہے ؟ وکیل کا کہنا تھا کہ بھارتی آئین میں صادق اور امین کے الفاظ موجود ہیں ، وزیراعظم کے بیان میں کوئی تضاد ہے نہ غلط بیانی ، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کوئی جھوٹ نہیں بولا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 66کی طرح 62بھی آئین کا ہی حصہ ہے ، کیا پارلیمنٹ میں کی گئی غلط بیانی کے بعد بھی استحقاق ہو گا ؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پہلے بات یہ ہے کہ غلط بیانی نہیں کی گئی ، اگر ہو تو پھر بھی استحقاق ہو گا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں براہ راست تقریر کی بنیاد پر کارروائی کرنے کا نہیں کہا گیا ، مختلف دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تقریریں ضمنی مواد اور دستاویزات میں آئی ہیں ۔ اس کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔وقفے کے بعد سماعت میں وزیر اعظم کے وکیل کو سخت عدالتی سوالات کا سامنا کرنا پڑا ۔