فیصلوں میں آسانی کا فارمولا

فیصلوں میں آسانی کا فارمولا
فیصلوں میں آسانی کا فارمولا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: رائے صابر حسین

کتاب ہدایت میں فرمایا گیا ہے کہ "اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو"۔
پاکستان میں عدالتی نظام سے متعلق ایک جملہ زبان زدعام ہے کہ دادا مقدمہ دائر کرتا ہے اور پوتا نمٹاتا ہے۔ اِس جملہ سے "فیصلہ سازی" کے عمل میں تاخیر مراد ہے۔وطن عزیز میں پانامہ سکینڈل کا دور دورہ ہے اور گلی محلوں، گھروں اور دفاتر میں اِسی مقدمہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پانامہ پیپرز میں سیاستدانوں اور صنعتکاروں کے نام منظرعام پر آئے تو ہلچل مچ گئی سیاسی زندگی میں اک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان، علیم خان اور جہانگیر ترین کے نام پانامہ پیپرز میں آئے۔ ن لیگ کے سربراہ اور وزیراعظم نواز شریف کا اگرچہ اپنا نام تو نہیں مگر بچے محفوظ نہ رہے۔ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو اور رحمن ملک کے نام بھی لوگوں نے سنے۔
کرپٹ افراد کا بلا تفریق احتساب کا مطالبہ سبھی کرتے ہیں مگر کسی ایک نکتہ پر متفق ہوتے بھی نہیں۔ جماعت اسلامی تمام کرپٹ افراد کے احتساب کیلئے کمیشن چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف سپریم کورٹ سے وزیراعظم سے اِس عمل کے آغاز کی تمنا رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی "جمہوری احتساب" چاہتی ہے یعنی صرف عوام احتساب کریں جو ووٹ کے ذریعے ہو۔ اِس طریقہ سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، کوئی سیاسی جماعت پانچ سال کیلئے اقتدار میں نہیں آ سکے گی جیسے 2013ء کے انتخابات کے بعد سے پیپلز پارٹی اقتدار سے محروم ہے۔کوئی بھی حق شناس اِس طرز کے "احتساب" کو پسند نہیں کر سکتا کیوں کہ اِس سے کرپٹ افراد کو سزا ملے گی اور نہ لوٹی ہوئی دولت واپس آ سکے گی۔
سپریم کورٹ نے پانامہ سکینڈل پر ازخود نوٹس کیس میں قریباً مہینہ بھر فریقین کے دلائل سنے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں حضرت عمر فاروقؓ کے کرتہ والے واقعہ کی مثال دی اور پھر یہ کہہ کر بینچ توڑ دیا کہ وہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور نیا بینچ ازسرنو کیس کی سماعت کرے گا۔ قوم کو ایک مہینہ تک انتظار کی سولی پہ لٹکایا گیا مگر نتیجہ کیا نکلا ؟؟؟
عدالت عظمیٰ کے نئے بینچ میں ایک بار پھر کیس کی سماعت جاری ہے، 13جنوری 2017ء کو بی بی سی اردو نے سرکاری دستاویزات کی روشنی میں ایک رپورٹ جاری کی کہ لندن کے مے فئیر فلیٹس نوے کی دہائی میں نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کے نام پر خریدے گئے اور تاحال اُن کی ملکیت تبدیل نہیں ہوئی۔
بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مے فئیر اپارٹمنٹس کے اِسی بلاک میں ایک اور فلیٹ 'بارہ اے' ایک برطانوی کمپنی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے۔ اِس کمپنی کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ کمپنی کے ڈائریکٹر وزیرِاعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز ہیں۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ نے ایون فیلڈ ہاؤس میں فلیٹ نمبر بارہ اے 29 جنوری 2004 میں خریدا تھا۔
لندن میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے سے حاصل کردہ دستاویزات میں مرکزی لندن کے علاقے مے فئیر میں پہلا فلیٹ سترہ ایون فیلڈ ہاؤس، یکم جون 1993 میں نیسکول لمیٹڈ نے خریدا۔ ایون فیلڈ ہاؤس ہی کی عمارت میں دوسرا فلیٹ نمبر سولہ، 31جولائی 1995 میں نیلسن انٹر پرائز لمیٹڈ نے خریدا۔
اِسی عمارت میں تیسرے فلیٹ سولہ اے کی خریداری بھی اِسی تاریخ کو عمل میں آئی اور یہ فلیٹ بھی نیلسن انٹر پرائز لمیٹڈ ہی نے حاصل کیا۔ چوتھا فلیٹ سترہ اے 23 جولائی 1996کو نیسکول لمیٹڈ نے خریدا۔بی بی سی اردو نے حسن نواز اور حسین نواز کو تحریری طور پر اپنا موقف دینے کیلئے دو بار خطوط لکھے مگر جواب نہ آیا۔ کیا شریف خاندان بی بی سی اردو کیخلاف "الزام تراشی" پر برطانیہ میں قانونی چارہ جوئی کرے گا؟؟؟
اب حسین نواز کا یہ دعویٰ کہ فلیٹس 2006ء میں خریدے گئے، جھوٹ ثابت ہوا۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف، اُن کی اہلیہ اور بچوں کے بیانات ایک ترتیب سے پڑھیے تو آپ پر حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔
ایک معزز قبیلہ مخزوم سے تعلق رکھنے والی فاطمہ نامی خاتون نے چوری کی تو آں حضورﷺ نے اُس پر حد جاری کی۔ حضورﷺ کے نورنظر حضرت اُسامہ بن زید نے سفارش کی تو فرمایا: ! تم سے پہلے لوگ صرف اِسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب اُن کا طاقتور اور معزز آدمی چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور آدمی چوری کرتا تو اُس پر حد قائم کر دیتے۔
اللہ کے نبیؑ کا ایک اور قول پیش نظر رہے تو تمام فیصلے آسان ہو جائیں:جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے، تباہی اور بربادی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -