لاہور ہائی کورٹ کی کارکردگی کا جائزہ

لاہور ہائی کورٹ کی کارکردگی کا جائزہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ کار میں دو لاکھ سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ تاثر درست نہیں کہ ججز زیر التواء مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ پنجاب گیارہ کروڑ آبادی کا صوبہ ہے اور یہاں انصاف کے حصول کے لئے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ لوگ فعال اور متحرک ہوتے ہیں۔ ہائی کورٹس کے تمام ججوں پر مقدمات کا بوجھ ہوتا ہے، فخریہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری عدالتوں میں باقاعدہ کام ہوتا ہے۔ جسے اطمینان بخش بھی قرار دیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ان خیالات کا اظہار علمی ادبی کانفرنس کے سپیشل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس کا موضوع ’’قانون کی بالادستی اور لاہور ہائی کورٹ کی تاریخ‘‘ تھا۔ اس موقع پر قانون کی بالادستی پر ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب کی رونمائی بھی ہوئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی حقائق بیان کرکے بعض لوگوں کے ذہنوں کی صفائی کرنے کی کوشش کی، جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ ججز بہت کم کام کرتے ہیں، کئی دہائیاں قبل کی یہ معلومات ملتی ہیں کہ ہر سال لاکھوں مقدمات زیر التواء رہا کرتے تھے جبکہ اگلے سال مزید مقدمات دائر ہونے سے عدالتوں پر بوجھ بڑھتا رہتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے سربراہوں نے اس سنگین مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ پرانے اور زیر التواء مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کا سلسلہ شروع کیا اور کسی قانونی استد لال کے بغیر مقدمات دائر کرنے کی حوصلہ شکنی کا آغاز کیا گیا یہی وجہ ہے کہ اب ہر سال ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں لاکھوں مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کے 36 اضلاع اور 88 تحصیلوں میں معمول کی ماتحت عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایکس کیڈر عدالتیں بھی لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ ء اختیار میں آتی ہیں، ہائی کورٹ کے لئے ججوں کی تعداد 66 ہے جبکہ ماتحت عدالتوں میں جو جج کام کررہے ہیں ان کی تعداد 2300 ہے۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا ہے کہ مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے صوبے میں عالمی معیار کے مطابق مجموعی طور پر دس ہزار ججوں کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی پنجاب میں مقدمے بازی کا رجحان دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، جہاں تک ہائی کورٹ سے جاری ہونے والے فیصلوں کے معیار کی بات ہے تو اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کی نظیر بھارت میں پیش کی جاتی ہے۔ یہ بات قابلِ فخر کہی جاسکتی ہے لیکن ججوں کی کمی کو پورا کرنے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ججوں کی مطلوبہ تعداد پوری کردی جائے تو انصاف کی فوری فراہمی ممکن ہوگی اور فیصلوں کا معیار بھی بڑھ جائے گا۔ حکومت کو ان باتوں پر توجہ دے کر ماضی کی کوتاہی کا ازالہ کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -