میں نے جیسے ہی لڑکی کو تعویذ دیا ، اس کے جنات فوری حاضر ہوگئے،اسکے بعد کیا ہوا ؟ یہ جان کر ہر کوئی دنگ رہ جائے گا کہ لڑکیاں ایسا بھی کرسکتی ہیں
تحریر: عبداللہ بھٹی
میں چھٹیوں میں گاؤں آیا ہوا تھا کہ میرے بڑے بھائی جان ریاض صاحب کسی دوست کو لے کر آئے اور بتایا کہ اس کی لڑکی کو سایہ ہے اور یہ بے شمار بابوں کے پاس جاچکا ہے لیکن جن وعدہ کرکے جاتے ہیں اور پھر آجاتے ہیں ۔ اس کا علاج کرو‘‘
لڑکی اپنی بھابھی اور باپ کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ میں نے تینوں کو بٹھا یااور تعویذ بنایا اور اس پر ABCلکھ دی۔ اور کہا ’’بیٹی یہ بہت خاص تعویذ ہے ۔یہ پکڑلو۔ اس کی طاقت اورتاثیر سے جنات فوری حاضر ہوجائیں گے‘‘
میں نے جیسے ہی اس لڑکی کو تعویز پکڑایا چند لمحوں بعد وہ بولی ’’اسلام و علیکم ‘‘
میں نے کہا ’’کون ہو تم ‘‘
’’ ہم جنات ہیں۔ اور آپ کو سلام کرتے ہیں ‘‘
مجھے شدید حیرت ہوئی کہ ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا اور تعویز بھی جعلی دیا ہے۔ یہ حاضری کیسے ہوگئی۔ میرا شک یقین میں بدل چکا تھا کہ یہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے، میں نے کہا ’’کوئی نشانی دو تاکہ مجھے یقین آجائے کہ تم واقعی ہی جنات ہو ‘‘
وہ بولی ’’یہ کونسی بات ہے ابھی لو‘ ‘
اس نے بھابھی سے کہا ’’سیب دو‘‘ اس نے چادر کے اندر سے سیب نکال دیا۔ پھر چینی مانگی ۔اس نے دے دی۔ پھر جلیبی مانگی وہ بھی دے دی۔
یہ ساری چیزیں اس کی بھابھی نے مانگی ۔مجھے یقین ہوگیاکہ بھابھی بھی ملی ہوئی ہے۔ میں نے لڑکی کے والد سے کہا ’’ آپ مسجد سے پانی کی بوتل لائیں ‘‘
وہ چلا گیا تو میں نے لڑکی سے کہا ’’یہ گھڑا اٹھا کر دیوار پر رکھ دو‘‘ تو وہ اٹھی اور گھڑا اٹھالیا ۔ میں نے کہا ’’ تم نہیں تمہارے جنات رکھیں ‘‘
اس نے انکار کردیا ۔ میں نے دو تین آؤٹ آف سیزن پھلوں کی فرمائش کی ۔وہ نہ لاسکی تو میں نے کہا ’’ میں تم کو مار مار کر ہڈیاں توڑ دوں گا۔ فوری بتاؤ کیا ڈرامہ ہے ‘‘
وہ ڈرگئی اور بولی’’ میں نے بھابھی کے بھائی سے شادی کرنی ہے، میرے گھر والے مانتے نہیں ہیں، اس لئے ہم دونوں نے یہ ڈرامہ کیاہے۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے ۔اس شرط پر کہ آج کے بعد یہ ڈرامہ نہیں ہوگا تو تمہاری شادی کرادوں گا اور آج کے بعد تم نے ڈرامہ کیا تو میں تمہارا راز کھول دوں گا‘‘ اس کے بعد کبھی اس لڑکی کو دورہ نہیں پڑا ۔اس کا والد اور میرے بھائی صاحب بہت خوش تھے کہ بھٹی صاحب نے لڑکی کے جنّ نکال دئیے ہیں۔ہاں واقعہ میں نے وہ جنات نکالے تھے جو کبھی تھے ہی نہیں ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔