گجرات جیل کی کرپشن کہانی،ایک قیدی کی زبانی

گجرات جیل کی کرپشن کہانی،ایک قیدی کی زبانی
گجرات جیل کی کرپشن کہانی،ایک قیدی کی زبانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

‎چنددن قبل گجرات جیل سےعمرقیدسزا کی آدھی مدت کاکٹھن مرحلہ طےکرنےوالےقیدی سےملنےکااتفاق ہوا،اُسکےبےگناہ ہونے کےباوجود سزا کا موجب بننے، سزا سےمتعلق آپ بیتی اور جیل میں دیگر تمام قیدیوں کا احوال جان کر ڈر خوف سے بھرپور اور خود کو شیروں بھیڑیوں کے جنگل میں محسوس کرتے محسوس ہوا، اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے یہ سوچ کر کہ یہ تحریر شائع ہونے کے بعد زندہ رہے تو غازی مر گئے تو شہید کی سوچ سجائے مگر ایک نئے جذبہ سے کھلی فضا میں سانسیں لینے والے اس پنچھی کی جانب سے جیل میں حالیہ مقیم اسکے ہم جولی دوست اور دشمن قیدیوں کی تکالیف کو جانتے ہوئے اس کے بارہا اصرار کرنے پر اس کی آپ بیتی بیان کرنے جا رہا ہوں۔بے گناہ پابند سلاسل رہنے والے قیدی نے جیل کے بیتے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی نیا حوالاتی جیل میں آتا ہے تو اس سے جیل کی صفائی کروائی جاتی ہےتاہم  500 روپے دے دئیے جائیں تو صفائی معاف وگرنہ انکار پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے،‎نئے آنے والے قیدیوں  کے بال کاٹے جاتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی ذلفیں ترشوانا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں ،جیل حکام کو  1500 روپے رشوت دے کر اپنے بال اپنی مرضی سے سلامت رکھ سکتے ہیں۔
‎ڈپٹی کمشنر کے ملاحظہ میں نئے حوالاتیوں پر تھپڑوں گھونسوں کی بارش کے کھٹن مرحلے سے بچنے کے کئے 2000 دے کر جان چھڑائی جا سکتی ہے،‎کسی حوالاتی کو اس کی فرمائش پر من پسند بارک میں بھیجے کے لئے 5000 سے 10000 روپے وصول کئے جاتے ہیں۔‎اگر کوئی حوالاتی جیل میں پیسے دینے سے انکار کر دے تو اس کی ارڈی لگا دی جاتی ہے تو پھر بے چارےحوالاتی کو ہر روز کے 300 روپے دینے ہوتے ہیں۔ایک ہی بارک میں رہنے اور ارڈی رکوانے کا ٹھیکہ 2 لاکھ فی ماہ ہوتا ہے ۔‎ڈپٹی سپریٹنڈنٹ کو ہفتہ وار جیل کا دورہ کرنے کا گورنمنٹ فنڈ درکار ہے جبکہ ہر بارک کا انچارج، قیدیوں اور حوالاتیوں سے ہر ماہ چونا پینٹ اور صفائی کا سامان لانے کی مد میں 2000 ہزار روپے وصول کرتا ہے۔
‎ہر بارک کا انچارج اپنی بارک کے حوالاتی سے ایک ہزار فی کس ہر ماہ وصولی کرتا ہے اور انکار پر حوالاتی کو کسی نہ کسی بہانے سزایہ طور پر’’سولہ بی‘‘ جسکو عرف عام میں’ قصوری‘ کہتے ہیں اس میں بند کر دیا جاتا ہےْ‎کسی حوالاتی یا قیدی کا ملاقات پر ملنے والے سامان کا زیادہ تر حصہ جیل ملازمین کی نظر ہو جاتا ہے ۔
‎ملاقات شیڈ میں ملاقات کا وقت 35 منٹ متعین ہوتا ہے اور اگر قیدی کو ملاقات کا زیادہ وقت درکار ہو تو 1000روپے فی گھنٹہ کے حساب سے وصول کئے جاتے ہیں اور زیادہ تر متعین کئے گئے ملاقات کے وقت کو 20 منٹ تک محدود کر دیا جاتا ہے جبکہ اس مد میں شیڈ کا ٹھیکہ 170000 ماہانہ وصولی ہے۔
‎اگر کسی قیدی کو عدالت کیطرف سے قید با مشقت ہوئی ہو تو  قیدی سے مشقت والی سزا سے بچنے کے لئے 6000 روپے ماہانہ وصولی کی جاتی ہے،اس وقت جیل میں قید با مشقت والے قیدیوں کی تعداد 250 کے لگ بھگ ہے جس میں سے صرف 50 قیدی مشقت کی اذیت میں باقی افراد کی بھی مشقت کا بوجھ بھی برداشت کرتے ہیں اور بہت کم قیدی تعلقات کی بنا پر6000فیس وصولی سے محفوظ ہیں اور اس مد میں تقریباً 800000 لاکھ روپے ماہانہ اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔‎اگر کسی قیدی کو اپنی مشقت کچن اسیران سے سنٹرل ٹاور کروانی ہو تو اس سے 20000 وصول کئے جاتے ہیں اورسنٹرل ٹاور کو عرفِ عام میں ’ چکر‘ کہتے ہیں جس کا ٹھیکہ 3 لاکھ ماہانہ ہوتا ہے اس جگہ قیدیوں اور حوالاتیوں سے پیسے تشدد کر کے لئے جاتے ہیں۔
‎منشیات بارک میں سگریٹ پینا منع ہے مگر جو حوالاتی بارک انچارج کو رقم دے گا وہ سگریٹ کے علاوہ تمام قسم کی منشیات کا استعمال کر سکتا ہے جبکہ اس بارک کے ٹھیکہ کے لئے متعین ملازم کو 80000 روپے بارک انچارج کو ادا کرنے ہوتے ہیں اور عدم وصولی پر مقررہ رقم کی حامی بھرنے والے نئے ملازم کا تقرر کر دیا جاتا ہے۔‎گورنمنٹ آف پنجاب کی طرف سے ہفتہ میں چار دن حوالاتیوں اور قیدیوں کو چکن فراہم کیا جاتا ہے مگر کبھی کبھار چکن شادی ہالوں میں باراتیوں کے پیٹ کی زینت بنتا ہے۔‎گورنمنٹ کیطرف سے لوکل فون (پی ٹی سی ایل) کی سہولت قیدیوں کو فراہم کی گئی ہے مگر 15000 ماہانہ ادا کرنے والا روزانہ کی بنیاد پر لامحدود فون کر سکتا ہے مگر غریب قیدیوں کو ہفتہ میں صرف ایک دفعہ چند منٹوں کے کے فون کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔‎بارک نمبر 5,6,7,8,9,10 کا ٹھیکہ 10000 ہزار ماہانہ ہے اور بارک انچارج ماہانہ موجودہ رقم ادا کر کے ہی اپنی ڈیوٹی متعلقہ بارک میں جاری رکھ سکتا ہے جبکہ بارک انچارج 40 سے 45000 ماہانہ کما لیتا ہے۔
‎قیدی بارک نمبر 3 کا ماہانہ ٹھیکہ 30000 ہزار ہے جبکہ بارک 14 کا 70000, بارک 16بی (قصوری) کا 25000, بارک یو سی سی پی(UCCP) کا 25000 ماہانہ متعین کیا گیا ہے
‎۔ایک بااثر ملازم کے پاس یک مشت تین عدد ٹھیکے (چکر، شیڈ اور کچن اسیران) ہیں جو کہ کارِ خاص کی حیثیت سے پہچانا رکھتا ہے،اسی طرع ارڈی جو کہ کارِ خاص اور منشی کے طور پر پہچان رکھنے والے وراڈن کی زیر نظر ہے۔
‎حقوق اسیران کے باب میں درج دفاعی حکمت عملی کے مطابق اگر کوئی حوالاتی یا قیدی افسرِ اعلی کی طرف سے تیار کی گئی پالیسی کے کسی ایک پیرا کے خلاف بھی عدالت میں درخواست دے تو جیل سے منسلک ملکی و صوبائی سطع پر متعین اعلی افسران کی طرف سے بجائے شفاف انکوائری کرنے کی بجائے نرمی یا سختی کی قانونی حکمت عملی کے پیش نظر قائم مقام متعلقہ جیل کے اعلی افسر الٹا قیدی کو درخواست واپس لینے کے لئے جیل میں موجود حامی قیدیوں سے لڑائی جھگڑا یا منشیات برآمد کا کیس بنا کر 16بی (قصوری )میں بند کر کے تشدد ، دباؤ یا دونوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس طرع کے اقدامات کئے جاتے ہیں کہ قیدی اپنی درخواست سے واپس لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قیدیوں کی ذہنی مریض یا انتشار انگیز زہنیت کا حامی کی فائل تیار کر کے اس کا ریکارڈ خراب کر کے دوسری جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس آزاد پنچھی کے مطابق وصولی کرنے والے ملازمین بتاتے تھے کہ ماہانہ اکٹھا ہونے والی رقوم کو اعلی سطع کے افسران تک حصہ بہ حصہ پہنچایا جاتا ہے اس کے علاوہ کچھ ملازمین کے مطابق سیاسی عناصر بھی انکی پشت پناہی میں ہیں۔‎فراہم کی گئی تفصیل سے مشکلات میں پھنسے قیدیوں کو داد رسی ہو نہ ہو مگر اعلی سطعی افسران کو وصول ہونے والے اصل رقم کا علم ہو جائے گاجبکہ بیرون ممالک قیدیوں کو محصوص علاقہ و عمارت میں بندش کی سزا کے علاوہ کھانا پینا کھیلنا تعلیم ورزش لائبریری کے علاوہ قیدیوں کی من چاہی اشیا ضروریہ کے لیے چھوٹی سطع پر کمائی کرنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ شادی شدہ افراد کو اپنی ازدواجی زندگی کو بحال رکھنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں جو کہ مجرمان جیل سے اچھی تربیتی مراحل سے گزرتے ہوئے باہر آ کر ایک شریف النفس انسان کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ موجودہ جیل کے احوال سے گزرنے والا جیل سے جرم کرنے کی نے نئی تراکیب و سلسلے کے ساتھ باہر آ کر چور سے ڈکیت اور ڈکیت سے قاتل کا روپ دھارتا ہے کیونکہ جیل میں کئے گئے اخراجات کا قرض اتارنا بھی ضروری امر ہے۔‎کچھ الفاظ قیدیوں کے نام !
‎نادانی میں فقط جرم تو کر دیا مگر سزا کی پاداش میں خاندان گھر زمین عزت و آبرو کو بھی نیلام کرنا مجبوری بن گئی۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -