یہ بے حسی اور لاتعلقی کیا کرے گی؟
محکمہ موسمیات کی طرف سے برف باری اور بارشوں کے ایک اور سپیل کی اطلاع دی گئی ہے جو کل سی شروع ہو سکتا ہے۔ اس بار این ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کرنے میں تیزی دکھائی اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شمالی پہاڑوں پر برف باری اور بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ بھی ہو سکتی ہے۔ اتھارٹی کی طرف سے تمام متعلقہ محکموں اور اہل کاروں کو خبردار رہنے کے لئے کہا گیا ہے۔ یہ ایک بہتر خبر ہے کہ 23جانوں کے ضیاع کے بعد اتنا تو ہوا کہ اب موسم کا دھیان رکھتے ہوئے خبردار تو کیا گیا، کیا صرف اس اطلاع یا الرٹ جاری کرنے سے فرض پوراہو جائے گا۔ ایسا بالکل نہیں، اصل کام تو یہ ہے کہ اب نہ صرف کارکن خبردار اور ہوشیار ہوں بلکہ تمام مشینری درست اور اپنے مقام پر ہونے کے علاوہ اہل کار بھی اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے موقع پر موجود رہیں۔ سانحہ مری کے حوالے سے گو اب بحث ٹھنڈی پڑ گئی، لیکن فضا میں صدا تو موجود ہے اور اب بھی مرحومین کے حوالے سے زندگی والی ویڈیو اور سیلفی تصاویر دکھائی دی جاتی ہیں۔ یہ سانحہ بہت بڑا تھا اور برف میں دفن نہ ہو پائے گا، لیکن سوال ہمارے مجموعی رویے کا ہے کہ ہم سود و زیاں سے بھی بے نیاز ہو گئے ہیں۔ ہماری سوسائٹی یا معاشرے کا مجموعی المیہ یہ ہے کہ ہماری یادداشت ہی کمزور تر ہو چکی۔ اب ہم بڑے سے بڑے حادثے کو بھی معمول کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے۔ ابھی مری سانحہ کو دن ہی کتنے گزرے ہیں۔ تحقیقات کے بڑے بڑے دعوے بھی سامنے آئے، لیکن کوئی نتیجہ تو بتائے، کیا یہ ناممکن تھا کہ کسی بھی تحقیقات سے قبل ان متعلقہ افسروں اور اہلکاروں کو وہاں سے ہٹا لیا جاتا، جہاں وہ سانحہ کے وقت متعین تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ پسماندگان کے لئے جن 8،8 لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا، ان کی تقسیم کے لئے بھی کسی منی بجٹ ہی کا انتظار جاری ہے۔ حالانکہ یہ کام دنوں کا تھا، اب تو ہفتے گزرنے لگے ہیں، لیکن بات وہی ہے کہ ہم بے حس ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ اب جو نئی پیش گوئی ہے کہ مزید برف پڑے گی تو کئی لوگ پھر سے مقام مرگ پر جانے کے لئے تیار ہو گئے ہوں گے۔
میں نے اس موضوع کو چھیڑنا نہیں تھا، مجھے یہی یقین تھا کہ یہ سب پانی کا ابال ہے۔ بیانات پر کون سا مول لگتا ہے۔ تنقید کوئی مشکل کام نہیں۔ یہی ہوگا اور ہوا، اگر کسی نے کچھ جاننا ہے تو اب بھی ان گھرانوں میں جا کر دیکھ لیں، جو پیاروں کو کھوکر اب بھی غم کی گھٹاؤں میں ہیں۔ کسی نے دکھ دیکھنا ہو تو اس اے ایس آئی کے بچے خاندان والوں کا جا کر دیکھ لے، جس کی ویدیو نے رلا دیا تھا، ان نوجوانوں کے اپنوں سے پوچھے، جن کی سیلفی آج بھی آنکھوں میں نمی لے آتی ہے، لیکن یہ بے حس معاشرہ اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو نئے موضوعات مل گئے ہیں اور وہ اسے بھول کر ادھر مصروف ہو گئے ہیں۔ ایسا پہلی بار تو نہیں ہو رہا، یہ ہمیشہ ہی سے ہوتا آیا ہے۔ لوگ تو اس سے بڑے حادثات کو بھی بھول گئے۔ کسے یاد ہے کہ کراچی میں کتنے بم دھماکے ہوئے۔ کوئٹہ میں کتنے ہزارہ جان سے گئے اور ملک کے مختلف مقامات پر کیسے کیسے خون کی ہولی کھیلی گئی، یہ سب تو روزمرہ کے معاملات ہین، کون فکر کرتا ہے، لیکن یاد رہے کہ اسے قومی سطح پر لاتعلقی کہتے ہیں، اگر قوموں کے مزاج میں ایسی لاتعلقی پیدا ہو جائے تو یہ دفاعی نقطہ ء نظر سے بھی بہت المناک ہوتی ہے۔ مجھے 1965ء اور 1971ء کا فرق بھی یاد ہے کہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے کوریج کر چکا ہوں جو جذبہ 1965ء میں تھا وہ 1971ء میں نظر نہیں آیا، اس کی وجہ بھی ایسے ہی حالات تھے جواب ہیں کہ 1965ء کی دفاعی جنگ میں کامیابی کے بعد نام نہاد بنیادی جمہوریت والی آمریت نے بہت بُرے دن دکھائے تھے اور آج کے حالات کے پس منطر میں وہ ایام بھی ہیں۔
اس قوم اور اس کے دانشوروں کا حافظہ کمزور ہے یا پھر جان بوجھ کر نظر انداز کرنا ہمارا شیوہ ہے۔ کسی کو یاد ہے کہ 1965ء میں ہی مادر ملت کو پولیس کے ذریعے صدارتی الیکشن میں ہرانے کے بعد کراچی میں فتح کا جو جلوس صابزادہِ اقتدار نے نکالا تھا، اس کا نتیجہ کیا نکلا، کیا ہم یہ بھی بھول گئے کہ بوری بند نعشیں ملتی تھیں اور آج ہم جب احتساب کی بات سنتے تو یاد آتا ہے کہ جو 22خاندان اس دور میں بنے، ان سے کسی نے کبھی حساب لیا، آج جو کیفیت ہے، وہ بھی اسی پس منظر کی وجہ سے ہے۔ سیاست میں عجیب لڑائی ہے۔ عدالتوں میں جاری مقدمات پر فیصلے باہر بتائے جاتے ہیں اور کوئی ردعمل بھی نہیں ہوتا۔ آخر ہم بھارت کے ساتھ بھی تو مذاکرات کی بات کرتے ہیں، اگر وہاں گنجائش ہے تو یہاں کیوں نہیں۔ کیوں اسمبلیاں اکھاڑے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
اگر حالات یہی رہے۔ ہم نے مجموعی طور پر غلطیوں پر غور کرکے ازالہ نہ کیا تو پھر فطرت اور قدرت ہی اپنا کام کرے گی۔ ہم انسانوں ہی کا کیا دھرا ہے کہ موسم بھی تبدیل ہو گئے۔ سردی، گرمی، بہار، خزاں بے معنی ہو کر رہ گئے آج کل تو دھند اور سموگ ہی پیچھا نہیں چھوڑ رہی تو باقی مسائل کا کیا کہنا؟ اور اب تو زلزلے کے جھٹکے بھی شروع ہیں۔ جب جھٹکا لگے تو اللہ یاد آتا ہے، ورنہ ہم کہاں اور رب کہاں؟ میری تو مودبانہ عرض ہے کہ حالات کو اچھی طرح جان کر سوچیں کہ ہمارا طرز عمل قومی ہے۔ ہر روز قوم کے درد کی بات کرنے والے قومی سوچ کیوں پیدا نہیں کرتے؟ حکومت اور حکمرانوں کو بھی عوام کا نام ہی لینا نہیں۔ عوامی بہبود کے کام بھی کرنا ہوں گے۔معاشرے میں یہ لاتعلقی اور بے حسی کو ختم کرنا کسی عام شخص کا نہیں۔ رہنماؤں کا کام ہے اور ان کو لڑنے جھگڑنے سے فرصت نہیں ہے۔ حضرت یہاں ایوب و یحییٰ اور ضیاء الحق کے بعد پرویز مشرف بھی حکمران رہے ہیں۔ وہ کلی اختیارات کے مالک تھے۔ اب وہ کہاں ہیں، ان کے نام لیوا کتنے ہیں۔ ذرا غور تو کریں خدارا قومی بے حسی ختم کرنے کے لئے گورننس کو بہتر کریں۔ سانحہ مری پر برف نہ ڈالیں نہ ”مٹی پاؤ“ والا کام کریں جو کرنا ہے جلد کریں۔