بابا صاحبا اشفاق احمدؒ اور مجلس زندہ دلاں کی روداد
ماضی قریب کے سب سے بڑے داستان گومحترم اشفاق احمدؒ سےملاقات کا حکم مجھے میرے مرشد کریم نے فرمایا اور حکیم محمد سعید شہید ،ان سے ملاقات کا سبب بنے۔۔۔ ان دنوں میں اسلام آباد میں، یا یوں سمجھئیے ،اسلام آباد مجھ میں آباد تھا۔۔۔غالبا نومبر1997ء کا آخری ویک اینڈ تھا، ملاقات کیا تھی، بس ایک ایسا مستقل رومان تھا کہ جس نے لمحہ ء موجود تک، دل سے دماغ کو جاتے سارے رستے مہکا رکھے ہیں ۔۔۔
ایک برس تک جناب اشفاق احمدؒ سے ملنے کے بہانے بنتے رہے، اور ہم اس چشمہ ء فیض سے سیراب ہوتے رہے۔۔۔پھر 20 نومبر 1998ء (جو کہ میری سالگرہ کا دن ہے) مجھے علم ہوا کہ اشفاق احمدؒ صاحب، اسلام آباد تشریف لائے ہوئے ہیں ۔۔۔میرے دوست سالگرہ کی مختصر مگر پرخلوص دعوت کے انصرام میں مشغول تھے اور میں "بابا صاحبا" کے قدموں میں بیٹھا، بابا کی باتوں کو دلیل کے میزان میں تولنے میں جتا ہوا تھا۔۔۔میں نے بابا جی سے رخصت چاہی تو اشفاق صاحب نے خلاف معمول جلدی جانے کا سبب پوچھا۔۔۔میں نے وجہ بتائی تو بولے، کیا بزرگ دوست اس کیک کو نہیں کھا سکتے؟؟؟میرے لئے اس سے بڑھ کر سالگرہ کا تحفہ کیا ہوسکتا تھا ، سو ایک لمحہ ضائع کئیے بنا ،محترم اشفاق احمدؒ کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور سالگرہ کی تقریب میں جا پہنچا، جہاں دوست میری گم شدگی کی تشویش میں مبتلا تھے لیکن بابا جی کو دیکھ کر سارا قہر ،مہر میں بدل گیا۔۔۔
کیک کاٹا گیا اور پھر ڈھیروں باتیں ، آنکھوں کی زبانی، دل کے کانوں سے سنی گئیں ۔۔۔اشفاق احمدؒ نے ہمیشہ کی طرح سب کو نہال کر دیا تھا، یوں طے ہوا کہ اشفاق احمدؒ جب بھی اسلام آباد آئیں گے، ہماری فکر کے چولستان میں باد خوشگوار کا کام کرتے رہیں گے ۔۔۔
کوئی لگ بھگ ایک ماہ بعد میرا داستان سرائے لاہور آنا ہوا تو، اشفاق احمدؒ نے بانو قدسیہ آپا کے سامنے مجھے حکم فرمایا کہ "اس مجلس" کا حال سناؤ...میں نے "اس مجلس" کی وضاحت سمجھنا چاہی تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا، مجلس زندہ دلاں کی روداد؟؟اس دن سے لیکر میری آخری ملاقات تک، اشفاق احمدؒ نے اسے مجلس زندہ دلاں ہی کہہ کر پکارا۔۔۔آخری عرصے میں جب بیماری نے کافی حد تک بے بس کردیا تھا، ایک روز فرمانے لگے، میں اسلام آباد آرہا ہوں ،شام کو دوستوں سے ملاقات کا اہتمام ہوسکے تو طبعیت بحال ہوجائے۔۔۔اندھا کیا مانگے دو آنکھیں، ہم نے دوستوں کو اکٹھا کیا اور مجلس زندہ دلاں کو برپا کر ڈالالیکن یہ سابقہ تمام مجلسوں سے یکسر مختلف مجلس بن گئی۔۔۔۔
تلاوت و نعت کے بعد ،اشفاق احمدؒ صاحب نے مائیک مجھ سے لے لیا اور فرمانے لگے، دوستو، مجھے تو یہ شخص ہر بار بلا لیتا ہے اور آپ کے سوالات میری کم علمی کا احساس بڑھاتے رہتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، اب یہ شخص یہاں بیٹھے گا اور ہماری گرہیں کھولے گا اور ہمیں بتائے گا کہ وہ کیا نسخہ ہے جسے اپنا کر انسان اپنا خیال "یک سو" کرسکتا ہے؟؟۔۔۔۔
یوں زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ سے جاگتی آنکھوں کیساتھ اپنےخواب میں، اپنے سامعین کو شریک کرنے کا جرم سرزد ہوا۔۔۔یہ بابا جی کیساتھ ہماری آخری مجلس زندہ دلاں تھی ۔۔۔وقت گزرتا گیا اور یہ مجلس آرائی چند سالوں بعد میری مصروفیت کی نذر ہوگئی۔۔۔کووڈ کے دنوں مجھے قدرے فرصت میسر آئی تو اپنے ادھورے کام مکمل کرنے کی جوت جاگی۔۔۔یقین مانیے، جن چند کاموں کے تسلسل ٹوٹنے کا زخم ایک مستقل پچھتاوے کی ٹیس بن کر لو دینے لگا، ان میں سے ایک مجلس زندہ دلاں کی وہ خوبصورت اور سرور آور محافل تھیں، مجھے اعتراف ہے کہ اس زخم نے لگ بھگ چار دن مجھے بے چین کیے رکھا۔۔۔پھر اچانک معروف اور باکردار صحافی، میری بیٹیوں جیسی دعا مرزا کا فون آیا اور اس نے ایک لمحے میں، میرے لہجے کی اداسی کو دریافت کرلیا اور میری دلجوئی کے لئے پوچھنا شروع کردیا کہ آپ کی سالگرہ، اس مرتبہ کہاں کہاں منائی جارہی ہے؟؟میں نے چند مشترکہ احباب کا حوالہ دیا تو اس نے کہا کہ اس بار ایک سالگرہ میں بھی اپنے صحافی دوستوں کے ساتھ ، آپ کی رکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔پھر یوں ہوا کہ 20 نومبر کی شام دعا مرزا کے حوالے سے احباب اکٹھے ہونا شروع ہوگئے، کیک کاٹا گیا اور ساتھ ہی دعا مرزا نے مجلس ذندہ دلاں کی روداد سناتے ہوئے ،اعلان کرڈالا کہ تمام حاضرین کو مجلس ذندہ دلاں کی اس نشست میں خوش آمدید ۔۔۔۔
احباب گرامی قدر!! سالگرہ کی وہ تقریب جس کا ممکنہ متعینہ دورانیہ ڈیڑھ گھنٹے طے تھا، اس کا اختتام لگ بھگ ساڑھے چار گھنٹے بعد، اس کے آئندہ ماہانہ اجلاس کے اعلان پر ہوا۔۔۔یہ تصاویر، مجلس زندہ دلاں کے گیارہ سالہ تعطل کےبعد، اجرائے ثانی کی نشست کی ہیں، جب ٹھیک 23 برس بعد، 20 نومبر(2021) کو ہی اس کی بحالی کا اعلان کیا گیا ہے۔۔۔اب یہ ذمہ داری دعا مرزا کو سونپتا ہوں کہ ہر ماہ اس مجلس پر روشنی تلاش کرنے والوں کو جمع کرے تاکہ خیر کا سلسلہ جاری رہے۔۔۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔