فیفا ورلڈکپ اور پاکستان!
قطر ایک اسلامی ریاست ہے۔ جس کی آبادی تقریباً تین ملین اور رقبہ 12 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔فٹبال انٹرنیشل ایسوسی ایشن کا قیام 1904 میں عمل میں آیا اور ورلڈ کپ عام طور پر ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔قطر میں منعقد ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ 2022 مشرق وسطیٰ میں ہونے والا پہلا اتنا بڑا ایونٹ تھا۔ ایک ایسا ایونٹ جسے شاید فیلڈ کے اندر اور باہر کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا۔ کئی ماہرین نے اسے اب تک کا بہترین اور مہنگا ترین ورلڈ کپ قرار دیا ہے۔قطر نے ایک اسلامی ملک کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے شراب کی عام فراہمی پر پابندی لگائی رکھی۔
فیفا کی فٹبال ٹیمز کی رینکنگ میں (ٹیم مین) پاکستان کا نمبر 195 ہے اور اسلامی ممالک میں سے مشہور ممالک مراکش،سعودی عرب،ایران،قطر، تیونس اور سینیگال نے اس ورلڈ کپ میں حصہ لیا۔ سعودی عرب نے ایک میچ بھی جیتا اور اپنے کھلاڑیوں کو قیمتی انعامات سے نوازا-اگر آپ گوگل پر پاکستان فٹبال فیڈریشن لکھیں تو آپ کو سب سے پہلے فیڈریشن کا فیس بک کا پیج ملتا ہے۔اس سے بھی آپ فیڈریشن اور ٹیم کی رینکنگ کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔بچپن میں سکول اور گاؤں کی فٹبال ٹیم میں ہم بھی کبھی کبھار حصہ لیتے تھے تاہم باقاعدہ گیم نہیں سیکھی۔
میں عام طور پر کرکٹ یا فٹبال کے میچز ٹی وی پر کم دیکھتا ہوں لیکن گیمز کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں -فٹ بال 2022 کا ورلڈ کپ بہت جوشو خروش سے جاری تھاتاہم پھر بھی میں نے زیادہ میچ نہیں دیکھے۔لیکن برادرم عامر خاکوانی کی ایک تحریر سے مجھے تحریک ملی کہ میں ورلڈ کپ کا فائنل میچ دیکھوں جو کہ ارجنٹینا اور فرانس کے درمیان ہوا۔ فٹبال کے پرانے مشہور کھلاڑیوں میں پیلے اور رونالڈو شامل ہیں۔مجھے میسی اور مباپے جیسے کھلاڑیوں کا پہلے زیادہ علم نہیں تھا۔ارجنٹینااور فرانس کی ٹیموں کے درمیان سنسنی خیز مقابلے کے بعدارجنٹینا نے میسی کی سربراہی میں ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیااور تقریباً 40 ملین ڈالر کا انعام پایا۔ میچ سے دونوں کپتانوں کی صلاحیت اور اسپورٹس مین شپ کو میں نیبہت سراہا۔فٹ بال کے حوالے سے ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے تیار کردہفارورڈ سپورٹس کمپنی کے فٹ بال استعمال ہوئے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سیالکوٹ سے بنے فٹ بال اور دوسریسامان باہر کے ممالک میں استعمال ہوتے ہیں۔برصغیر پر انگریز کا راج تھا،انگریز فٹ بال کے بہت شوقین تھیاور انڈیا میں رہنے والے انگریزوں کے لئے فٹ بال برطانیہ سے بذریعہ سمندر ی جہازبھیجے جاتے تھے۔جو کبھی کبھی لیٹ بھی ہو جاتے۔ تب انگریز فٹ بالز کے بغیر ایسامحسوس کرتیجیسے پانی کے بغیر مچھلی۔یہ 1889 کا واقعہ ہے،بحری جہاز لیٹ ہوگیا۔ بے صبرے گورے نے اپنا پھٹا ہوا گیند سیالکوٹی کو تھماتے ہوئے اسے پنکچر لگانے کو کہا۔گورے کو یہ جان کر حیرت کی انتہانہ رہی کہ مرمت اصل سے بہتر تھی۔چنانچہ اس نے وقت اور پیسہ بچانے کی خاطر سیالکوٹی کو ہی مزید گیندیں بنانے کا ا?رڈر دے دیا۔یہیں سے سیالکوٹیوں کا ہنر کھل کر سامنے ا? گیا۔ بعدازاں فٹ بال لندن سے یہاں ا?نے کی بجائے یہاں سے لندن جانے لگے۔وہ وقت اور ا?ج کا دن، سیالکو ٹ نے سبقت نہیں چھوڑی۔ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔1992میں ہمارے ہی فٹ بال ورلڈ کپ میچوں میں استعمال ہوئے تھے۔یہ ایک عام سی مثال ہے جس کا حقیقت ہونا یا نہ ہونا کنفرم نہیں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک عمل ہو سکتا ہے جس سے سیالکوٹ کے فٹبال دوسریممالک میں متعارف ہوئیہیں۔
حالیہ ورلڈ کپ میں قطر کے ملک نے جو انتظامات کیے وہ قابل ستائش ہیں۔جس میں ورلڈکپ کے آغاز کے وقت آنے والے تمام تماشائیوں کو تحائف دیے گئے۔ان تحائف میں خوشبو، کھجوراور مختلف چھوٹے تحائف ہر کسی کی کرسی پر رکھے گئے۔ کھیل کے آغاز اور اختتام پر بہت اچھی تقر یبات کی گئیں اور بے شمار لوگ مسلمان بھی ہوئے۔اسلام کے بڑے بڑے مبلغ بھی وہاں آئے جن میں مشہور شخصیت ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی شامل تھے۔
قطر نے فیفا کے اصولوں کی بجائے اپنے ملک کے اصولوں کو مقدم رکھا اور دنیا کو ایک اچھا پیغام دیا اور ساری دنیا نے تعریف بھی کی،جن میں دنیا کے بڑے ادارے بی بی سی اور بین الااقوامی میڈیا بھی شامل ہے۔انہوں نیکہا کہ اس دفعہ فٹبال کے انتظامات انتہائی اعلی درجہ کے تھے اور اس سے پہلے کسی ملک نے اس سے زیادہ خرچے والے اسٹیڈیم بھی نہیں بنائیاور نہ ہی اتنے زیادہ تماشائی محظوظ ہوئے۔اسمیچکیبعدلوگاپنیاپنیممالککوقطرکاسفیربنکر گئے ہیں اور اسلامیممالککااچھاتاثرلیکرگئے ہیں۔ فیفا نے ٹیموں میں اضافے کے بعد 2026 کے ورلڈ کپ فارمیٹ کو تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے ورلڈ کپ میں 16، سولہ ٹیموں کو تین گروپس میں تقسیم کیا جائے گا۔ تاہم اس پر ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔فیفا جہاں اگلے ورلڈ کپ کی ٹیموں کی تعداد کم کرنے کا سوچ رہی ہے۔وہاں پاکستان فٹبال فیڈریشن کو ضروری امداد اور ذرائع مہیا کئے جانے چاہئیں تاکہ پاکستان کی فٹبال ٹیم بھی ورلڈ رینکنگ میں اوپر آئے۔حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ جس طرح پاکستان میں کرکٹ کو پزیرائی اور ذرائع حاصل ہیں اسی طرح فٹ بال کو ملکی،ڈسٹرکٹ اور ڈیپارٹمنٹ لیول پر متعارف کرواکر پاکستان کے کھلاڑیوں کو کواپنی صلاحتیں منوانے کا موقع دینے چاہئے۔ یا ہمیں صرف فٹبال بنانے پر ہی اکتفا کر لینا چاہئے؟
٭٭٭