سیاست اور ماسٹر پلان

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری گورنر کو ارسال کر کے پرویز الٰہی نے خود کو عمران خان کا مخلص اور پر اعتماد اتحادی ثابت کر دیا، دوسری طرف گورنر نے کہا کہ وہ اِس تحلیل کا حصہ نہیں بننا چاہتے اور اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا مگر آئین کے مطابق سمری ارسال کرنے کے48گھنٹے بعد اسمبلی اور کابینہ دونوں از خود تحلیل ہو گئی ہیں، اب آئین کے مطابق گورنر کو اِس تقرری کے لئے وزیراعلیٰ اور قائد حزبِ اختلاف نے نام دینے ہیں اگر دونوں کا ناموں پر اتفاق نہیں ہوتا اور پھر دونوں اطراف کی کمیٹی بھی اتفاق نہیں کرتی جس کی اُمید بھی نہیں تو آخر میں الیکشن کمیشن کسی موزوں اُمیدوار کی نامزدگی کرے گا،الیکشن کمیشن کے حالیہ دِنوں میں کئے گئے فیصلوں پر تحریک انصاف مطمئن نہیں، الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں کوجانبدارانہ کہا جا سکتا ہے جن کے خلاف تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کیا اور نتیجے میں وہ فیصلے کالعدم قرار پائے،اِس صورت حال میں شاید الیکشن کمیشن کی نامزدگی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے لئے قابل قبول نہ ہو، مسلم لیگ(ن) کا خود کو اِس عمل سے الگ رکھنے کا واضح مطلب ہے کہ وہ نگران وزیراعلیٰ کی تقرری میں بظاہر دلچسپی دکھائے یا الگ تھلگ رہے، نگران اُن کی مرضی کا ہی آئے گا،متنازع اور جانبدار نگران وزیراعلیٰ کی تقرری ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دے گی، نگران حکومت کا آئینی دائرہ کار منصفانہ اور شفاف الیکشن کرانا ہے اور اگر نگران خود غیر جانبدار نہ ہوئے تو اُن کی نگرانی میں کرائے گئے الیکشن پر بھی سوالیہ نشان لگا رہے گا۔
زیر نظر تحریر جب تک قارئین کے مطالعہ میں آئے گی تب تک شاید خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھی گورنر خیبر کو ارسال کر دی جائے جس کے نتیجے میں ملک کے دو صوبوں میں منتخب حکومت نہیں رہے گی،قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان اجتماعی استعفیٰ دے چکے ہیں جسے سابق ڈپٹی سپیکر نے بطور قائم مقام سپیکر منظور بھی کر لیا تھا، بعدازاں 13جماعتی اتحاد کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے منطوری پر قدغن لگاتے ہوئے ارکان کو فرداً فرداً طلب کر لیا،البتہ جن حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدوار کم مارجن سے جیتے وہ11استعفے قبول کر لئے جن پر ضمنی الیکشن کے شیڈول کا اب تک اعلان بھی نہیں کیا گیا،اقدام کا مقصد تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں اکثریت کو اقلیت میں بدلنا تھا کہ کسی وقت اگر ووٹنگ کی ضرورت پڑے تو پی ٹی آئی اکثریت حاصل نہ کر سکے، اب تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر کے سامنے پیش ہوکر استعفوں کی تصدیق کا پروگرام بنا لیا ہے،
اِس کے ساتھ ہی عدالت سے بھی رجوع کرنے کی تیاری ہو رہی ہے،سپیکر کا موقف ہے بعض ارکان استعفیٰ نہیں دینا چاہتے، اُن کا دعویٰ ہے کہ اجتماعی استعفیٰ پر اُن کے دستخط بھی جعلی ہیں،سپیکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ ارکان نے اُن کو فون کر کے یہ بات کہی اِس لئے استعفوں کی تصدیق ضروری ہے مگر یہ خدشہ اور گمان بھی ایسا ہی ہے جیسے پنجاب اسمبلی کے 15ارکان کا اعتماد کے ووٹ سے قبل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے رابطہ تھا اور وہ اعتماد کا ووٹ دینے سے انکاری تھے مگر وقت آنے پر ووٹ دیئے،صرف دو ارکان غیر حاضر تھے جن کو شوکاز جاری کر دیا گیا ہے،عمران خان نے اُن کو طلب کر لیا ہے، ایسے ہی قومی اسمبلی کے وہ ارکان ڈھونڈے نہیں ملیں گے جو استعفیٰ نہیں دینا چاہتے، قومی اسمبلی کے 11ارکان کے استعفے منظور ہو چکے ہیں، باقی 111سپیکر کے سامنے پیش ہونے کو تیارہیں،نتیجہ ملک بھر میں نئے عام انتخابات۔ شنید ہے الیکشن کمیشن نے نئے عام انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے، مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے الیکشن سے قبل نواز شریف واپس آ جائیں مگر اِس کے لئے عدالتی مراحل سے گزرنا ضروری ہے،البتہ مریم نواز کی فوری واپسی ممکن ہے مگر مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت اُن کے ماتحت کام کرنے پر آمادہ نہیں،یوں الیکشن سے قبل مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں گہرے اختلافات دکھائی دینے لگے ہیں اور بہت سے الیکٹ ایبلز نے اُڑان بھرنے کی تیاری بھی کر لی ہے،لگتا ہے آئندہ الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی کی پنجاب میں بھی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی اور عام انتخابات مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی،جے یو آئی اور دیگر جماعتیں الگ الگ اور اپنے اپنے پلیٹ فارم اور منشور کے تحت لڑیں گی،دیکھیں اِس سلسلے میں کیا ماسٹر پلان بنتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کے مسائل سے دوچار ہے،پانی کی قلت اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے،اِس پر ستم زرعی اراضی سکڑتی جا رہی ہے، گرین بیلٹ کو پابندی کے باوجود براؤن بیلٹ میں تیزی سے تبدیل کیا جا رہا ہے،کسان مہنگے بیج،کھاد،زرعی ادویہ،آلات کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہے، کپاس، گنے،گندم کی نقد آور فصلیں بھی کسان کے لئے خسارے کا سبب ہیں،شوگر ملز گنے کی ادائیگی نہیں کرتیں،آڑھتی ایڈوانس دے کر گندم کی فصل کا مالک بن جاتا ہے،کپاس کی کاشت کا رقبہ بھونڈی پالیسیوں کے تحت کم کیا جا رہا ہے،منافع خوری،ذخیرہ اندوزی عام ہے،جاتے جاتے پنجاب حکومت نے لاہور ماسٹر پلان کی منظوری دی، راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے رئیل سٹیٹ مافیا سے مل کر لاہور، قصور، شیخوپورہ، سیالکوٹ کے گرد گرین بیلٹ کو تیزی سے ختم کرنا شروع کر دیا، کسانوں کو زبردستی اراضی فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا، کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی گئی،یہ سب اُس وقت کیا جا رہا ہے جب ملک ماحولیاتی آلودگی سے دوچار ہے، مہذب دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا آزمودہ علاج زیادہ سے زیادہ جنگلات،ہریالی،فصلیں ہیں مگر ہم نئے درخت اور جنگلات کیا لگاتے جو پہلے سے موجود ہیں اُنہیں بھی ختم کرتے جا رہے ہیں،اِسی بناء پر لاہور ہائی کورٹ نے سموگ کے خاتمے اور گرین لینڈ پر رہائشی کالونیوں کی تیزی سے تعمیر کے خلاف درخواست پر ماسٹر پلان پر عملدرآمد تا حکم ثانی روک دیا اور سموگ کے خاتمے کے لئے سخت ترین اور مسلسل کارروائی کا حکم صادر کیا ہے۔
عمران خان پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے جنگلات کی اہمیت کو سمجھا اور شجر کاری کو ایک تحریک کی شکل دی،بلا مبالغہ اُن کے دور میں اربوں کی تعداد میں نئے درخت لگائے گئے،یہ نہیں معلوم اُن کی خبر گیری، آبیاری اور نگہداشت کا بھی کوئی انتظام کیا گیا یا نہیں،پرویز الٰہی خود زمیندار ہیں اور درخت کی اہمیت سے واقف ہیں،اُن کے دور میں ایسے منصوبے کی توقع نہیں تھی مگر بات وہی ہے کہ صوبے میں مجسٹریسی نظام نہیں جو ایسے معاملات کا خود فیلڈ میں جا کر جائزہ لے کر فوری ایکشن کر کے معاملات کو درست کر سکیں،عمران خان نے شجر کاری کرائی مگر کتنے رقبے پر کتنے درخت لگے اور اُن کی نگہداشت کے لئے کیا اقدامات بروئے کار آئے، کسی کو نہیں معلوم، یہاں اگر مجسٹریسی نظام ہوتا تو یہ فورس درختوں کی حفاظت بھی کرتی اور اُن کا خیال بھی رکھتی تاہم،اب کوئی اِن درختوں پودوں کا والی وارث نہیں،نقصان قوم کا ہو رہا ہے، ملک ماحولیاتی آلودگی میں دنیا بھر میں سر فہرست آ چکا ہے۔